عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 607287
سوال : ہمارے علاقہ میں علماء کرام کو بلا کر ان سے قرآن شریف کا ختم یا دیگر ختم،ختم یونس،ختم خواجگان وغیرہ کروایا جاتا ہے ۔دفع مصیبت کے لئے ،بیماری کی شفاء کے لئے ،کاروبار وغیرہ میں برکت کے لئے ،مردہ کو ایصال ثواب کے لئے یا پھر اس بات کے نذر ماننے کی وجہ سے کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے تو ایک ختم کرواونگا۔اور پھر ہدیہ بتا کر یا کچھ بتائے بغیر ان علماء کو کچھ رقم دی جاتی ہے اور اکثر دعوت بھی کھلاتے ہیں۔ایسا کرنا کیسا ہے ؟یہ ہدیہ "اجرت علی الطاعات"میں شمار ہوگا یا نہیں؟نیز بعض لوگ بیماری کی شفاء کے لئے جو ختم کروایا جاتا ہے اس کو رقیہ میں شامل کرتے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ اس میں اگر دم نہ کیا جائے تو رقیہ میں شامل ہوگا یا نہیں؟ مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی صورت میں اگر جائز ہو تو اس کو مسجد میں پڑھنا کیسا ہے ؟"اجارہ فی المسجد"کی وجہ سے ناجائز ہوگا یا نہیں؟نیز پڑھنے والے اور پڑھانے والے کو ثواب ملے گا یا نہیں؟ براہ کرم ہر شق کی وضاحت کرتے ہوئے بالتفصیل مع الدلائل جواب دیں۔
جواب نمبر: 607287
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 393-342/B=04/1443
مذکور فی السوال مقاصد کے لیے خلوص کے ساتھ ختم قرآن شریف یا دیگر ختم، ختم خواجگان وغیرہ بلا تداعی ہو تو گنجائش ہے، بشرطیکہ پیسوں کا لین دین یا کھانے وغیرہ کا اہتمام نہ کیا جائے، کیونکہ اجرت پر قرآن پڑھنے سے جب پڑھنے والے کو ہی ثواب نہیں ملتا ہے، تو مردے کو کہاں سے پہنچے گا؟ البتہ رقیہ اور علاج کے لیے یا بیماروں کی شفایابی کے لیے کوئی عمل کرکے مریض پر دم کیا جائے، تو اس میں ہدیہ لینے کی گنجائش ہے، کیونکہ یہ رقیہ کی قبیل سے ہے، اور اگر دم نہیں کیا گیا بلکہ صرف قرأت ہوئی ہے، تو اس پر اجرت کے جواز کی صراحت کہیں نہیں ملی، اس لیے ایسی صورت میں روپیہ کا لین دین نہ ہونا چاہئے؛ البتہ مہمان نوازی کے طور پر اجرت کا قصد کیے بغیر کچھ کھلا پلادیں تو اس کی گنجائش ہے۔ نیز مسجد ان کاموں کے لیے موضوع اور شایان شان نہیں ہے۔ مزید تفصیل و تحقیق کے لیے دیکھیں: فتاوی رحیمیہ: 2,7,9/307,204,112۔ فتاوی دارالعلوم: 5/307۔ کفایت المفتی: 2/15۔ امداد الاحکام: 2/268۔ شامی: 3/148۔ فتاوی محمودیہ: 9/220۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند