• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 605333

    عنوان:

    تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر امام اور مؤذن کو چندہ کرکے پیسہ دینا؟

    سوال:

    کیا تراویح میں امام صاحب اور موازن صاحب کو چندہ کرکے ختم قرآن پر پیسہ دینا جائز ہے جبکہ نیت صرف اللہ کے لیے پڑھنا ہو؟ مینے تو تمام اکابرین علماء یہ دیوبند کے بارے میں سنا ہے کہ ان کا فتویٰ تو ناجائز کا ہے اور ابھی موجودہ علماء جیسے مفتی محمد صاحب جامعة الرشاد، مفتی طارق مسعود اور مفتی سعید احمد پالنپوری رہ سے بھی ناجائز کا بیان سنا ہے لیکن مولانا الیاس گھمن اور مفتی جر ولی رہ تو اسے جائز کہتے ہیں ۔ میرے محلے کے امام صاحب نے کہا میری نیت صرف اللہ کے لیے پڑھنا ہے لیکن ایک بیان میں کہتے ہیں کہ جس طرح تراویح میں بنا مانگے جو پیسہ ملتا ہے ، وہ لینا جائز ہے ، اسی طرح جو جہیز بنا مانگے دیا جاتا ہے وو لینا جائز ہے ۔ مطلب تراویح میں بنا مانگے لینے کو جائز سمجھ رہے ہیں۔ تروایح کا چندہ گھر گھر جا کر کیا جاتا ہے اور تنخواہ کا چندہ میں ڈھیل ہوتا ہے ایک عالم نے کہا کہ یہ پہلے کا فتویٰ ہی پہلے بیت المال کا زمانہ تھا۔ کیا ایسے امام کے پیچھے نماز تروایح پڑھنا جائز ہے ؟ مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ جواب عنایت فرمائے تاکہ میں اس جواب کو محلے کے علماء کو دکھاوں گا- دعا میں یاد رکھیئے ۔اللہ مجھے اہلسنّت ول جماعت احناف دیوبند کی صحبت میں رکھے ۔

    جواب نمبر: 605333

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 935-149T/M=11/1442

     امام صاحب اور موذن صاحب کو ان کی امامت و اذان کی خدمت کے عوض تنخواہ کا لین دین جائز ہے لیکن تراویح میں قرآن سنانے کی اجرت ناجائز ہے، تراویح کے عنوان سے چندہ کرنا اور خاص ختم قرآن کے موقع پر قرآن سنانے والے حافظ کو پیسہ دینا درست نہیں اگر صاف طور پر پیسہ کا مطالبہ نہ ہو لیکن علاقے کا عرف ختم کے موقع پر پیسہ دینے لینے کا ہو تو المعروف کالمشروط کے ضابطے سے یہ بھی بحکم اجرت ہوکر جائز ہوگا، دارالعلوم دیوبند کا یہی موقف ہے اس بارے میں ایک مفصل فتوی ”معاوضہ علی التراویح کی شرعی حیثیت“ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے اس میں دلائل موجود ہیں، اگر بغیر پیسہ لیے قرآن سنانے والا کوئی حافظ نہ ملے تو الم ترکیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند