• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 602249

    عنوان:

    قرآن كریم كو كسی اور زبان میں لكھنا؟ اور جدید رموز لگانا؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہین مفتیان دین ومتین مندرجہ ذیل دو مسئلوں کے متعلق۔

    (۱) آجکل قرانی نص کو رومن انگلش یا دیگر زبانوں میں لکھ کر غیر عربی دان کیلئے آسانی کی جارہی ہے کیا یہ صحیح ہے ؟

    (۲)اسی ضمن مین یہ مسئلہ بھی آتا ہے جدید رموز واوقاف (پنکچویشن) ان تحریروں میں لگا کر آسانی کی جائے جیسے افلا تعقلون؟ پر یہ سوالیہ نشان بنادیا جائے ۔یا حاشیہ پر دوسری زبان میں ایسا نشان بنا دیا جائے ?Afala taqeloon براہ کرم دلائل کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں کہ زیر زبر رکوع پارے وغیرہ کے نشانات پر کیا اجماع امت ہے جبکہ ہر ملک اور ہر چھپائی میں مختلف نشانات ہیں۔

    جواب نمبر: 602249

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:438-61T/L=6/1442

     قرآن پاک کیونکہ لفظ و معنی دونوں کا مجموعہ ہے نیز کسی دوسری زبان میں عربی زبان کی طرح الفاظ کے مخارج کی رعایت نہیں ہوپاتی؛ اس لیے قرآن کو عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھنا باجماع امت ناجائز ہے ، ہاں قرآن پاک کا صحیح ترجمہ( بایں طور کہ قرآن کے کلمات اوپر ہوں اور ترجمہ نیچے ) کسی بھی زبان میں کیا جاسکتا ہے۔

    قال أشہب: سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء؟ فقال: لا إلا علی الکتبة الأولیٰ۔ رواہ الدارانی فی المقنع۔ ثم قال: ولا مخالف لہ من علماء الأمة. وقال الإمام أحمد: یحرم مخالفة خط مصحف عثمان رضی اللہ عنہ فی واو أو یاء أو ألف أو غیر ذٰلک۔ (الاتقان / النوع السادس والسبعون فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ۲/۳۲۸، بحوالة: تعلیقات فتاویٰ محمودیة ۳/۵۰۷دابہیل)وقال البیہقی فی شعب الإیمان: من کتب مصحفًا فینبغی لہ أن یحافظ علی الہجاء التی کتبوا بہ تلک المصاحف ولا یخالفہم فیہا، ولا یغیر مما کتبوہ شیئًا؛ فإنہم کانوا أکثر علمًا وأصدق قلبًا ولسانًا وأعظم أمانة منا، فلا ینبغی لنا أن نظن بأنفسنا استدراکًا علیہم ولا سقطا لہم۔ (شعب الإیمان للبیہقی / فصل فی أفراد المصحف للقرآن وتجریدہ فیہ عما سواہ2/548)وفی الاتقان:وہل تجوز کتابتہ بقلم غیر العربی؟ قال الزرکشی: لم أر فیہ کلاما لأحد من العلماء قال: "ویحتمل الجواز، لأنہ قد یحسنہ من یقرأ بالعربیة، والأقرب المنع کما تحرم قرائتہ بغیر"، لسان العرب، ولقولہم: القلم أحد اللسانین والعرب لا تعرف قلما غیر العربی وقد قال تعالی: (بلسان عربی مبین) انتہی․ (الإتقان فی علوم القرآن 4/ 183)

    جہاں تک قرآن میں جدید رموز واوقاف لگانے کا مسئلہ ہے تو اس میں متعدد خرابیاں ہیں مثلا:یہ صرف ان لوگوں کے لیے مفیدِ مطلب ہوسکتا ہے جو عربی داں اور رموز سے واقف ہوں جبکہ قرآن ہر ایک کے لیے ہے خواہ وہ عربی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ثانیاً:پہلے سے ہی ایسی جگہوں پر کچھ نہ کچھ رموز لگے ہوئے ہیں کہیں ”ط“ کہیں ”لا“ وغیرہ اور قراء حضرات ان کی رعایت کرتے ہوئے وقف وغیرہ کرتے ہیں اور اگر جدید رموز لگائے جاتے ہیں تو ان قدیم رموز واوقاف کو حذف کرنا لازم آئے گا اور ثالثا یہ ایک نئی چیز ہوگی جو لوگوں میں تشویش کا باعث ہوگی ۔بنا بریں ان جدید رموز واقاف سے احتراز لازم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند