• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 601127

    عنوان:

    تفسیر بالرائے کا مطلب

    سوال:

    محترم جناب مفتی صاحب دار العلوم السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ۔ امید ہے کہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے ۔مجھے دریافت یہ کرنا ہے کہ تفسیر بالرائے کسے کہتے ہیں؟کسی آیت کی تفسیر میں عکرمہ؛ مجاہد؛ قتادہ؛ ضحاک وغیرہ کاقول نقل کرنا کیااس بات کا غماز نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی قولِ رسول نہیں ہے ؟ تو احادیث کے تفسیرِقرآن ہونے کا کیا مطلب؟

    جواب نمبر: 601127

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:198-207/N=5/1442

     (۱): تفسیر بالرائے کامطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت، جملہ یا کلمہ کی تشریح وتوضیح محض ذاتی رائے وسمجھ کی بنیاد پر کی جائے، قرآن فہمی کے جو اصول وشرائط ہیں، اُن کی رعایت وپاس داری نہ کی جائے۔ یہ تفسیر بالرائے سخت مذموم ہے اور حدیث پاک میں اس پر وعید بھی آئی ہے۔ اور اگر قرآن کریم کی کسی آیت، جملہ یا کلمہ کی تشریح وتوضیح، قرآن کریم کی کسی دوسرے آیت، جملہ یا کلمہ کی بنیاد پر ہو یا حدیث پاک میں آئی ہو یا قرآن فہمی کے اصول وشرائط کی رعایت کے ساتھ ہو تو وہ تفسیر صحیح ومعتبر ہے؛ البتہ اگر وہ تشریح وتوضیح کسی ایسے شخص کے اجتہاد پر مبنی ہو، جو تفسیر قرآن کی شرائط کا حامل ہو اور اس نے قرآن فہمی کے اصول وشرائط کی روشنی میں ہی وہ تشریح وتوضیح کی ہو تو گاہے اس پر بھی تفسیر بالرائے کا اطلاق ہوجاتا ہے ؛ لیکن یہ تفسیر بالرائے محمود ہے، مذموم نہیں اور یہ حدیث پاک کی وعید میں بھی داخل نہیں ہے اور اس صورت میں ”تفسیر بالرائے“ کی تعبیر میں ”رائے“ سے اجتہاد صحیح ومعتبر مراد ہوگا۔

    (۲): کسی آیت کی تفسیر میں عکرمہ، مجاہد، قتادہ، ضحاک وغیرہ کا قول نقل کیا جانا اس بات کی قطعی دلیل نہیں کہ اُس آیت کی تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً، دلالتاً، اشارتاً یا اقتضاء ً کچھ ثابت نہیں، بہت ممکن ہے کہ ان حضرات میں کسی کا قول حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کسی ارشاد گرامی یا عمل مبارک وغیرہ پر ہی مبنی ہو۔

    (۳): احادیث کے تفسیر قرآن ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احادیث میں قرآن کریم کی ایک ایک آیت کی تفسیر کی گئی ہے؛ بلکہ احادیث مبارکہ میں قرآن کریم کے صرف ایک ضروری ومعتد بہ حصہ کی تفسیر کی گئی ہے؛ کیوں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بہ قول آیات قرآنیہ ۴/ قسم کی ہیں۔ پہلی قسم: وہ آیات جن کا علم اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری قسم: وہ آیات جن میں بیان کردہ حقائق ہر عقل مند جانتا اور سمجھتا ہے۔ تیسری قسم: وہ آیات، جن کا معنی ومفہوم اہل عرب بہ خوبی جانتے ہیں۔ اور چوتھی قسم: وہ آیات جن کا معنی ومفہوم اہل علم ہی جان سکتے ہیں۔ اور حضرت اقدس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے عام طور پر چوتھی قسم کی آیات کی تفسیر فرمائی ہے؛ کیوں کہ پہلی، دوسری اور تیسری قسم کی آیات کی تفسیر کی ضرورت نہیں تھی (تفصیل کے لیے اصول تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند