عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 47912
جواب نمبر: 47912
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 180-132/D=2/1435-U (۱) آپ نے سوال میں جو عربی عبارت ذکر کی ہے ”لا إلہ إلا اللہ سبحان رب العرش العظیم“ نہ تو پارہ ۱۹/ کی آیت سجدہ کا جز ہے اور نہ ہی کسی دوسرے پارے کی آیت، لہٰذا اس کے وِرد کرتے رہنے سے کوئی سجدہ واجب نہیں ہوتا، البتہ اسے آیت قرآنی سمجھ کر نہ پڑھیں، آیت جو ہے اسے پڑھ سکتے ہیں۔جہاں تک ۱۹/ ویں پارے کی آیت سجدہ کا تعلق ہے تو اس کا جز یہ ہے ”اللّٰہُ لَا اِلَہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ“ لیکن محض اس ٹکڑے کو پڑھنے سے بھی سجدہ واجب نہیں ہوگا، جب تک کہ اس سے پہلے والے کلمہ جس میں حرف سجدہ ہے نہ پڑھا جائے، قال الشامي: والأحسن والظاہر أن ہذا الاختلاف مبني علی أن السببَ تلاوةُ آیةٍ تامَّةٍ کما ہو ظاہر إطلاق المتون إلخ․․ ولو قرأ آیة السجدة کلَّہا إلا الحرفَ الذي آخرُہا لا یجب علیہ السجود إلخ ”إلا الحرف“ أي الکلمة الّتي فیہا مادَّة السجود“ شامي: ۲/ ۵۷۶/ ۵۷۵، ط زکریا) (۲) فجر اورعصر کی نماز کے بعد مروجہ فاتحہ پڑھنا اسی طرح عید جمعہ کی فجر اور تراویح کے بعد سلام پڑھنا بدعت ہے جو امام ان چیزوں کا ارتکاب کرتا ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا اگرچہ مکروہ ہے لیکن جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے ”کما في الدر المختار“ وفي النہی صلی خلفَ فاسق ومبتدعٍ نال فضلَ الجماعة“ قال الشامي: أفاد أن اصلاة خلفہما أولی - من الإنفراد“ لہٰذا اگر کسی دوسرے امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہو تو اس بدعتی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہیے اور اگر کوئی دوسرا امام میسر نہ ہو تو اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند