• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 40922

    عنوان: عصمت انبیاء كے سلسلے میں

    سوال: (۱) سورة فتح کی آیات نمبر ۲ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے نبی ہم نے آپکے اگلے پچھلے گناہ/معاف کردیا، کیا یہ تراجمہ صحیح ہے؟ (۲)کیا کسی حدیث میں یا قرآن میں کہی یہ لکھا ہوا ہے کہ نبی گناہوں اور خطاوَں سے پاک ہوتے ہیں ؟ (۳)قرآن کریم کی آیت میں جو صفات ہوتی ہیں تو کیا اس میں بھی انسانی دماغ لگاکر الگ الگ معنی نکالنا صحیح ہے؟

    جواب نمبر: 40922

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1032-1022/N=11/1433 (۱) جی ہاں! یہ ترجمہ صحیح ہے، اس کی صحت میں کوئی استبعاد نہیں ہے کیونکہ عربی میں لفظ ذنب بہت عام ہے، اس کا اطلاق خطا اجتہادی اور گناہ صغیرہ پر بھی ہوتا ہے جن کا انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام سے صدور ان کی عصمت کے اور شان نبوت کے منافی نہیں، نیز ذنب کا ترجمہ گناہ سے بیشتر محققین مترجمین حضرات جیسے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمہ اللہ، حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا تھانوی رحمہ اللہ وغیرہم نے کیا ہے۔ (۲) ایسی کوئی خاص قرآنی آیت یا حدیث تو وارد نہیں ہوئی جس میں یہ آیا ہو کہ نبی گناہوں اور خطاوٴں سے پاک ہوتے ہیں لیکن مختلف نصوص کی روشنی میں علمائے امت نے کتب عقائد میں عصمت انبیاء کے مسئلہ میں یہ بات ذکر کی ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام بعض گناہوں اور خطاوٴں سے معصوم ہوتے ہیں اور بعض سے نہیں، پھر تفصیل ذکر کی ہے اس لیے اس سلسلہ میں آپ کتب عقائد کا مطالعہ کریں۔ (۳) نصوص شرعیہ کی روشنی میں جن معانی اور مفاہیم کی گنجائش ہو انھیں نکالنا اور بیان کرنا درست ہے، اور نصوص شرعیہ سے ہٹ کر محض اپنے ذہن ودماغ سے آیات صفات بلکہ کسی بھی آیت میں مختلف معانی اور مفاہیم نکالنا یا اس کی تشریح کرنا تفسیر بالرائے ہے جو شرعاً ناجائز ہے اور احادیث میں تفسیر بالرائے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، دیکھئے مشکاة شریف: (کتاب العلم الفصل الثانی ص:۳۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند