• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 37663

    عنوان: مشركین كے نجس ہونے كا مطلب

    سوال: سورة توبہ آیت نمبر ۲۸ میں ہے کہ مشرکوں کو مسجد حرام میں نہ جانے دیا جائے ۔ ب سوال یہ ہے کہ کافروں کو مساجدمیں داخل ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے۔ امام مالک کے نزدیک کسی بھی مسجد میں کافر کا داخلہ ناجائز ہے۔ امام شافعی کے نزدیک مسجد حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں کافر کو مسلمان کی اجازت کے ساتھ داخل ہونا جائز ہے۔ اور ہمارے امام صاحب یعنی امام ابو حنیفہ کے نزدیک بوقت ضرورت کافر ہر مسجد م داخل ہو سکتا ہے۔ (روح المعانی) سوال میرا آپ سے یہ ہے کہ میں حنفی ہوں اور فقہ حنفی پر عمل کرتا ہوں تو ذہن میں اکثر خیال آتا ہے کہ کیا واقع میں فقہ حنفی م فتویٰ اس بات پر ہے کے مسجد حرام میں بھی کافر داخل ہو سکتا ہے، جب کہ قرآن میں منا کیا گیا ہے۔ میرا مطلب امام صاحب پر اعتراض ہرگز نہیں ہے مگر مسئلہ کی تحقیق ہے کے حنفی فقہ میں یہی فتویٰ ہے یا کچھ اور فتویٰ ہے کافر کے مسجد حرام میں داخلے کیسلسلے میں؟ مطابق اگر یہاں پر امام شافعی کے فتویٰ پر عمل کیا جائے تو احتیاط کے زیادہ قریب نہیں ہو گا ؟

    جواب نمبر: 37663

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 517-441/B=4/1433 سورہٴ توبہ آیت: ۲۸ ”اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا“ میں مشرکین کو مسجد حرام کے قریب جانے سے منع کرنے کا مطلب حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ آئندہ سال سے ان کو مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی، اور اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے ذریعہ موسم حج میں جو اعلان براء ت کردیا تھا وہ اسی کا اعلان تھا کہ لا یحجن بعد العام مشرک لہٰذا آیت مذکورہ کے معنی بھی اس اعلان کے مطابق یہی ہیں کہ ان کو حج وعمرہ کی ممانعت کی گئی ہے، یعنی اسلام کا یہ ایک سیاسی حکم ہے جس کا اعلان سورہٴ براء ت کے شروع میں کیا گیا ہے کہ جس قدر مشرکین مکہ میں موجود تھے ان سب سے حرم کو خالی کرانا مقصود تھا تاکہ آئندہ اس کے غلبہ کا کوئی خطرہ نہ رہے۔ جہاں تک مساجد کو نجاستوں سے پاک رکھنے کا مسئلہ ہے وہ ایک مستقل مسئلہ ہے، جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے، لیکن اس آیت کا تعلق اس مسئلہ سے نہیں ہے کیونکہ فتح مکہ کے بعد قبیلہٴ ثقیف کا ایک وفد آیا تو آپ نے اسے مسجد حرام میں ٹھہرایا حالانکہ وہ وفد کافروں کا تھا، صحابہٴ کرام نے عرض بھی کیا یا رسول اللہ یہ نجس لوگ ہیں ان کو آپ نے مسجد میں ٹھہرایا تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ مسجد کی زمین پر ان کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا، اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کو جو نجس کہا گیا ہے وہ کفر وشرک کی نجاست ہے۔ نیز حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے یوں فرمایا کہ کوئی مشرک مسجد کے پاس نہ جائے بجز اس کے کہ مسلمان کا غلام یا اس کی لونڈی ہو، اس حدیث میں کافر غلام اور کافرہ باندی کو مسجد میں داخلہ کی اجازت دی۔ ان ہی آیات واحادیث کی بنیاد پر کسی ضرورت سے اگر باجازت خلیفة المسلمین اگر کافر مسجد حرام میں داخل ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے، اور ظاہری نجاست کی حالت میں تو کافر ومسلمان دونوں کا داخلہ مسجد میں ممنوع ہے۔ پھر جمہور کے نزدیک مسجد حرام سے مراد پورا حدود حرم ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچا تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دائرہ اور وسیع کردیا کہ پورے جزیرة العرب سے کافروں کو نکالنے کا حکم فرمادیا کہ مکہ مکرمہ اسلام کی مرکزی جگہ ہے اور یہ اسلام کا قلعہ ہے، یہاں کسی غیرمسلم کو رکھنا گوارا نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پورا کیا۔ پس جب پورے حدود حرم بلکہ جزیرہٴ عرب میں مشرکین کا داخلہ ممنوع ہوگیا تو ان کو مسجد حرام میں آنے کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا، اس سے آپ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تفسیر، حدیث اور فقہ میں بصیرتِ تامہ کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔ (ماخوذ از معارف القرآن)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند