• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 3030

    عنوان: میرے ایک امریکی عیسائی معاون ہیں ، قرآ ن کی ایک آیت پر انہیں کچھ اشکا ل ہے

    سوال:

    میرے ایک امریکی عیسائی معاون ہیں ، قرآ ن کی ایک آیت پر انہیں کچھ اشکا ل ہے۔ ان کا کہناہے کہ میں اسلام قبول کرنے کے لیے تیارہوں۔ اگر انہیں مطمئن کردیاجائے تو ممکن ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔ ان کو سورة الحج آیت ۵۲/پر اشکال ہے (۱) یہ آیت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیون نازل ہوئی؟(۲) اللہ تعالی نے اپنے محبوب پر ایساہونے کیوں دیا؟ ّ(۳) کیا آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی دوسرے نبی ہیں جنہوں نے شیطان سے آیتیں پڑھی ؟ اگر ہیں تو کون؟ (۴) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلے اللہ علیہ وسلم شیطانی آیات کی تلاوت کی تو (نعوذبااللہ ) مومن نہیں رہے، واضح رہے کہ قرآن کے مطابق شیطان صرف غیر مسلموں پر غالب رہتاہے؟ (۵) جبرئیل علیہ السلام کے کہنے سے پہلے آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہیں معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ شیطان کا کلام ہے؟ (۶) کیا شیطان کی کوئی دوسری آیت ہے؟ جواب کا انتظار رہے گا۔

    جواب نمبر: 3030

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 672/ ن= 668/ ن

     

    ہدایت، اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے، قرآن کریم کا ہرہرحرف منزل من اللہ ہے اس میں کسی آیت و لفظ میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش ہے: قال تعالیٰ: ذٰلِکَ الکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ اور یہ قرآن کریم اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ قال تعالیٰ: ھُدًی لّلْمُتَّقِیْنَ (الآیة) ورنہ بہت سے فاسق لوگ اس کی وجہ سے گمراہی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قال تعالیٰ: یُضِلُّ بِہ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہ کَثِیْرًا وَ مَا یُضِلُّ بِہ اِلاَّ الْفَاسِقِیْنَ (الآیة) سورة الحج کی آیت ۵۲/ کا اولاً ترجمہ ملاحظہ ہو: اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ جو شیطان کے اغواء سے آپ سے مجادلہ کرتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کو یہ قصہ پیش نہ آیا ہو کہ جب اس نے (اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے) کچھ پڑھا (تب ہی) شیطان نے اس کے پڑھنے میں (کفار کے قلوب میں) شبہ (اوراعتراض) ڈالا (اور کفار انہی شبہات اوراعتراضات کو پیش کرکے انبیاء سے مجادلہ کیا کرتے)۔ جیسا کہ دوسری آیات میں ارشاد ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۔ وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیآءِ ھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ (الآیة) پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو (آیاتِ قاطعہ و دلائل واضحہ سے) نیست و نابود کردیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی آیات (کے مضامین) کو زیادہ مضبوط کردیتا ہے (گو وہ فی نفسہا بھی مستحکم تھیں لیکن اعتراضات کے جواب سے اس استحکام کا زیادہ ظہور ہوگیا)۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اور بہت سے دوسرے حضراتِ مفسرین نے مذکورہ ترجمہ و تفسیر کو اختیار کیا ہے اور اس آیت کی یہی تفسیر صحیح ہے اور کتب حدیث میں اس جگہ جو ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے جو غرانیق کے نام سے معروف ہے یہ واقعہ جمہور محدثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے۔ بعض حضرات نے اس کو موضوع ملحدین اور زنادقہ کی ایجاد قرار دیا ہے۔ اور اس آیت میں تمنی بمعنی قرأ ہے ، اور أمنیة بمعنی قراءة ہے، عربی لغت کے اعتبار سے یہ معنی بھی معروف ہیں۔ اور جو اشکالات آپ کے ساتھی عیسائی نے کیے ہیں ان کی بنیاد غرانیق والی موضوع حدیث پر ہے، لہٰذا جب اشکالات کی بنیاد درست نہیں تو اشکالات بھی درست نہیں۔ اور نبی علیہ السلام یا اور کسی نبی نے شیطان سے کوئی آیت نہیں پڑھی اور نہ کبھی نبی علیہ السلام کی زبان سے شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ جاری ہوا، اور نہ ہی شیطان کو اتنی قدرت ہے کہ وہ نبی علیہ السلام کے دل میں کوئی غلط بات ڈالتا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوجاتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند