• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 179293

    عنوان:

    تفسیر کی کتابوں میں موجود ایک واقعے کی تحقیق

    سوال:

    مذکورہ واقعہ مفتی شفیع عثمانی رحمة اللہ علیہ نے معارف القرآن سورة توبہ آیت نمبر 74 کے ذیل میں نقل فرمایا ہے اس کے علاوہ اور بھی دیگر مستند تفاسیر میں اس واقعہ کو نقل کیا گیا ہے جبکہ تحقیق کے بعد یہ بات پتہ چلی ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت اور نہ قابلِ قبول ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ واقعی میں من گھڑت ہے ؟ اگر ہاں! تو پھر ہمارے اکابرین نے اس واقعہ کو اپنی تفاسیر میں کیوں نقل فرمایا؟ اور موجودہ دور میں مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے بھی اپنی تفسیر میں اس واقعہ کو نقل فرمایا ہے برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ کیا اس واقعہ کو بیان کیا جا سکتا ہے ؟ (المستفتی سمیر انصاری ممبئی) *واقعہ* ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، طبرانی اور بیہقی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص ثعلبہ ابن حاطب انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ درخواست کی کہ آپ دعاء کریں کہ میں مالدار ہوجاؤ ں، آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو میرا طریقہ پسند نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں چاہتا تو مدینہ کے پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ پھرا کر تے ، مگر مجھے ایسی مال داری پسند نہیں، یہ شخص چلا گیا، مگر دوبارہ پھر آیا اور پھر یہی درخواست اس معاہدہ کے ساتھ پیش کی کہ اگر مجھے مال مل گیا تو میں ہر حق والے کو اس کا حق پہنچاؤں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعاء کر دی جس کا اثر یہ ظاہر ہوا کہ اس کی بکریوں میں بے پناہ زیادتی شروع ہوئی، یہاں تک کہ مدینہ کی جگہ اس پر تنگ ہوگئی، تو باہر چلا گیا، اور ظہر عصر کی دو نمازیں مدینہ میں آکر آپ کے ساتھ پڑہتا تھا، باقی نماز میں بھی جنگل میں جہاں اس کا یہ مال تھا وہیں ادا کرتا تھا ۔ پھر انہی بکریوں میں اور زیادتی اتنی ہوگئی کہ یہ جگہ بھی تنگ ہوگئی، اور شہر مدینہ سے دور جا کر کوئی جگہ لی، وہاں سے صرف جمعہ کی نماز کے لئے مدینہ میں آتا اور پنجگانہ نمازیں وہیں پڑھنے لگا، پھر اس مال کی فراوانی اور بڑھی تو یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑی، اور مدینہ سے بہت دور چلا گیا، جہاں جمعہ اور جماعت سب سے محروم ہوگیا ۔ کچھ عرصہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے اس کا حال دریافت کیا تو لوگوں نے بتلایا کہ اس کا مال اتنا زیادہ ہوگیا کہ شہر کے قریب میں اس کی گنجائش ہی نہیں، اس لئے کسی دور جگہ پر جا کر اس نے قیام کیا ہے ، اور اب یہاں نظر نہیں پڑتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر تین مرتبہ فرمایا ویح ثعلبة، یعنی ثعلبہ پر افسوس ہے ثعلبہ پر افسوس ہے ، ثعلبہ پر افسوس ہے ، اتفاق سے اسی زمانہ میں آیت صدقات نازل ہوگئی، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدقات کا مکمل قانون لکھوا کر دو شحصوں کو عامل صدقہ کی حیثیت سے مسلمانوں کے مویشی کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیج دیا، اور ان کو حکم دیا کہ ثعلبہ بن حاطب کے پاس بھی پہونچیں، اور بنی سلیم کے ایک اور شخص کے پاس جانے کا بھی حکم دیا ۔ یہ دونوں جب ثعلبہ کے پاس پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان دکھایا، تو ثعلبہ کہنے لگا کہ یہ تو جزیہ ہوگیا، جو غیر مسلموں سے لیا جاتا ہے ، اور پھر کہا کہ اچھا اب تو آپ جائیں جب واپس ہوں تو یہاں آجائیں ، یہ دونوں چلے گئے ۔ اور دوسرے شخص سلیمی نے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا تو اپنے مویشی اونٹ اور بکریوں میں جو سب سے بہتر جانور تھے ، نصاب صدقہ کے مطابق وہ جانور لے کر خود ان دونوں قاصدان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گئے ، انہوں نے کہا کہ ہمیں تو حکم یہ ہے کہ جانوروں میں اعلیٰ چھانٹ کر نہ لیں، بلکہ متوسط وصول کریں، اس لئے ہم تو یہ نہیں لے سکتے ، سلیمی نے اصرار کیا کہ میں اپنی خوشی سے یہی پیش کرنا چاہتا ہوں ، یہی جانور قبول کر لیجئے ۔ پھر یہ دونوں حضرات دوسرے مسلمانوں سے صدقات وصول کرتے ہوئے واپس آئے تو پھر ثعلبہ کے پاس پہونچے ، تو اس نے کہا کہ لاؤ وہ قانون صدقات مجھے دکھلاؤ پھر اس کو دیکھ کر یہی کہنے لگا کہ یہ تو ایک قسم کا جزیہ ہوگیا، جو مسلمانوں سے نہیں لینا چاہئے ، اچھا اب تو آپ جائیں میں غور کروں گا پھر کوئی فیصلہ کرونگا ۔ جب یہ دونوں حضرات واپس مدینہ طیبہ پہنچنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے حالات پوچھنے سے پہلے ہی پھر وہ کلمہ دہرایا جو پہلے فرمایا تھا یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ یا ویح ثعلبہ، یعنی ثعلبہ پر سخت افسوس ہے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر سلیمی کے معاملہ پر خوش ہوکر اس کے لئے دعا فرمائی، اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی، وَمِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ، یعنی ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو مال عطا فرماویں گے تو وہ صدقہ خیرات کریں گے ، اور صالحین امت کی طرح سب اہل حقوق، رشتہ داروں اور غریبوں کے حقوق ادا کریں گے ، پھر جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے مال دیا تو بخل کرنے لگے ، اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے پھر گئے ۔ (معارف القرآن،التوبہ،74) *واقعے کی اسنادی حیثیت کا تحقیقی جائزہ* یہ قصہ تین سندوں سے مروی ہے : #ایک ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور مذکورہ سیاق انھیں کی روایت کا ہے ۔ اس کی سند اس طرح ہے : معان بن رفاعہ نے علی بن یزید سے ، انھوں نے قاسم بن عبد الرحمن سے ، اور قاسم نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔ سند پر جرح: یہ سند بہت ضعیف ہے ۔اس کا راوی علی بن یزید جس کی کنیت ابو عبد الملک اور نسبت الالہانی ہے ، سارے علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک بہ اتفاق رائے ضعیف ہے ۔ نیز امام ابن حبان فرماتے ہیں : جس روایت کی سند میں عبید الله بن زحر، علی بن یزید اور قاسم بن عبد الرحمن جمع ہوجائیں تو وہ روایت بس انھیں کے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے ۔ #اس قصہ کی دوسری سند ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے ۔ جس میں یہ قصہ مختصر طور پر بیان ہوا ہے ، اس کے اندر مذکورہ تفصیلات نہیں ہیں ۔ سند یوں ہے : محمد بن سعد نے اپنے باپ سے سنا کہ اس نے اپنے چچا سے سنا کہ اس کو اس کے باپ نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ قصہ بیان فرمایا۔ سند پر جرح: یہ سند ایک دم ساقط ہے ۔ اس کی حیثیت محدثین کے نزدیک لید (گوبر) کے برابر بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ سند میں کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے ۔ نیز یہ پورا خاندان عوفیوں کا خاندان ہے جس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ سب کے سب ضعیف ہیں ۔ #اس قصہ کی تیسری سند حسن بصری رحمہ الله سے مرسلاً پائی جاتی ہے ۔ ان کی روایت میں قصہ تو مذکور نہیں، البتہ آیت کے شان نزول میں ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے ۔ سند یوں ہے : ابن حمید نے سلمہ کو ابن اسحاق سے بیان کرتے سنا کہ عمرو بن عبید ، حسن سے یہ قصہ بیان کرتے ہیں ۔ سند پر جرح: یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ ایک تو مرسل ہے ۔ حسن تابعی ہیں اور انھوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ انھوں نے یہ واقعہ کس سے سنا ہے ؟ اور ان کے او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ کون ہے ؟ نیز عمرو بن عبید ابو عثمان معتزلی باعث ہلاکت ہے ۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں: عمرو بن عبید اعتزال کا داعی تھا۔ صحابئہ رسول رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالی دیتا تھا۔ ساتھ ہی حدیث میں جھوٹا تھا، لیکن قصداً نہیں بلکہ وہماً۔ مذکورہ بحث سے ہر چشم بینا کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس قصہ کی تمام روایات معلول ہیں۔ کوئی ایک روایت بھی علت اور ضعف سے خالی نہیں۔ کسی میں متروک یا سخت ضعیف راوی ہے ، تو کسی میں متہم بالکذب ۔ یہ ساری روایات قصہ کی صحت کو تقویت دینے کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ کررہی ہیں ۔

    جواب نمبر: 179293

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:788-163T/N=12/1441

    (۱): جی ہاں! احقر نے بھی اس واقعے کی تمام روایات کی تفصیلی تحقیق کی ہے اور مختلف علمائے محققین کی مختصر اور تفصیلی تحریرات پڑھیں تو ان سے واضح ہوا کہ یہ واقعہ کسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیں ہے؛ بلکہ اس کی ساری روایات انتہائی ضعیف ہیں، جن سے واقعے کا اثبات نہیں ہوسکتا۔

    (۲): یہ واقعہ تقریباً تفسیر کی ہر کتاب میں نقل کیا گیا ہے اور مفسرین کرام، تفسیر لکھتے وقت عام طور پر تفسیر ہی کی کتابیں سامنے رکھتے ہیں اور تفسیر کی جن احادیث کے بارے میں شک شبہ ہوتا ہے، صرف ان کی تحقیق فرماتے ہیں، تفسیر کے دیگر اہم پہلووٴں کی بنا پر تفسیر کی ہر ہر حدیث کی عام طور پر تحقیق نہیں فرماتے ہیں، نیز یہ واقعہ سلف کے زمانہ ہی سے زبان زد عوام وخواص ہے؛ اس لیے ہمارے اکابرین کی تفاسیر میں بھی نقل ہوگیا ہے۔ اگر ہمارے اکابرین کو ذرا بھی شبہ ہوتا تو وہ ضرور تحقیق فرماتے اور اسے ہرگز اپنی تفاسیر میں جگہ نہ دیتے؛ بلکہ اس کا رد فرماتے۔

    (۳): جی نہیں! جب یہ واقعہ کسی بھی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے تو اسے بیان نہیں کرنا چاہیے؛ البتہ تردید کے مقصد سے ضعف شدید کی صراحت کے ساتھ بیان کرنے میں کچھ حرج نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند