• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 176804

    عنوان: قرآن کریم کے منظوم ترجمے کا حکم

    سوال: حضور والا معلوم یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیا قرآن کے تفسیری اور مفہومی ترجمہ کو اشعار میں ڈھالا جا سکتا ہے اس طور پر کہ وزن شعر کی رعایت کرتے ہوئے یہ بھی لحاظ رکھا جائے کہ حتی الامکان الفاظ کا وہی ترجمہ کیا جائے جس کا لفظ مقتضی ہے اور وزن کے پیش نظر ترجمہ کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی جائے اور اسی مقصد سے ترجمہ کے کسی لفظ یا کچھ الفاظ کو دہرایا جائے جبکہ حتی الامکان ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی جائے اور کچھ الفاظ کا ترجمہ اس وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ ان کی وجہ سے وزن برقرار نہیں رہتا اور انکا ترجمہ نہ کرنے سے مفہوم کی ادائیگی میں فرق محسوس نہیں ہوتا مثلًا لفظ وَ کا ترجمہ "اور" کرنے سے ہر جگہ شعر کا وزن درست نہیں رہتا اور نہ کرنے سے مفہوم میں کوئی خاصا فرق معلوم نہیں ہوتا اسی طرح اسم کا ترجمہ فعل سے اور فعل کا اسم سے جیسے "رب" کا ترجمہ "پالتا ہے" اور "نستعین" کا ترجمہ "عون کے طالب ہیں" سے کیا جائے، شریعت اس کی بابت کیا رہنمائی کرتی ہے آیا ایسی سعی مباح و مشکور ہے یا ممنوع و مردود مثال کے طور پر میں نے کچھ آیتوں کے ترجمہ کو اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور ان میں وزن برقرار رہے اس کی بھی اور ترجمہ غلط نہ ہو اپنے علم کے مطابق اسکی رعایت رکھنے کی بھی کوشش کی ہے مثال کے طور پر سورہ فاتحہ کا ترجمہ اشعار میں اس طرح ڈھالا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم تمام حمد ہے اللہ پاک ہی کے لئے جو پالتا ہے جہانوں کو سب (اسی کے لئے) یا تمام حمد ہے اللہ پاک (ہی کے لئے) سبھی جہانوں کے پروردگار ہی کے لئے رحیم جو ہے، جو رحمان ہے (اسی کے لئے) جزا کے روز کا مالک ہے جو (اسی کے لئے) یہاں پر مؤخر کو مقدم کیا وزن کی خاطر اسی طرح قوسین کے الفاظ دہرائے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ لام حرف جر کی وجہ سے اللہ کے بعد تمام صفت مجرور ہیں لہذا سب میں ہی اسکا معنی پایا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے وزن قائم رہتا ہے تری ہی کرتے ہیں (اللہ) بندگی ہم تو تجھی سے عون کے طالب ہیں (اے خدا) ہم تو یا مدد بھی تجھ سے ہی کرتے ہیں (رب) طلب ہم تو چلانا ہم کو تُو (ربّا سدا) درست ڈگر ہوا ہے جن پہ تُو منعم (خدا) انہی کی ڈگر نہ ان کی (راہ پہ) جو مستحق غضب کے ہوئے نہ ان کی (راہ پہ) جو (راہ سے) ہیں بھٹکے ہوئے وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے قرآن کی کچھ آیتوں کے مفہوم کو یا یوں کہہ لیں کے مفہومی ترجمہ کو اشعار میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے نہ کہ لفظی ترجمہ کو کیونکہ ایسا کرنا میرے اندازہ میں بہت مشکل ہے یا پھر نا ممکن ہی ہے بس کیا یہ ہے کہ کسی لفظ یا جملہ کا معنی مختلف طریقے سے مفہوم ہوتا تھا اس میں سے جو طریقہ وزن شعر میں موزوں تھا تو اس کو لے لیا ہے کچھ اور مثالوں پہ غور فرما لیں عنایت ہوگی مثلا سورہ بقرہ کی شروع کی آیتیں: بسم اللہ الرحمن الرحیم الم یہ وہ کتاب ہے، کچھ بھی نہیں ہے شک جس میں ہُدی ہے ان کے لئے (رب کا) خوف ہے جن میں عقیدہ غیب (کی باتوں) پہ جو کہ رکھتے ہیں نماز (حق کو ادا کرکے اسکے) پڑھتے ہیں عطا کیا ہے جو ہم نے انہیں، وہ اس میں سے (خدا کی مرضی پہ) کرتے ہیں خرچ (اس میں سے) عقیدہ رکھتے ہیں جو، اس پہ جو اتارا گیا ہے تم سے قبل، وَ تم پر بھی جو اتارا گیا یقین رکھتے ہی ہیں یہ تو آخرت پہ، یہی ہیں اپنے رب کی ہُدی پر، ہیں کامیاب یہی اسی طرح دیکھیں: وہ لڑتے رہینگے لڑائی برابر (سنو مومنو) تم سے (باطل کے لشکر) یہاں تک کہ تم کو تمہارے ہی دیں سے ہٹا دیں اگر کر سکیں وہ (یقیں سے) جو تم میں سے پھرجائے اپنے ہی دیں سے مرے پھر وہ کافر ہی ہوکر (یقیں سے) تو ایسے ہی لوگوں کے اعمال (پیارے) ہوئے رائیگاں دونوں عالم میں (سارے) یہ (دوزخ کی) آتش کے ہیں رہنے والے اسی میں ہمیشہ ہیں رہ جانے والے جو ایمان لائے ہوئے جو مہاجر لڑے رب کے رستہ میں (جنت کی خاطر) تیقن وہ کرتے ہیں رحمت پہ رب کی صفت مغفرت اور رحمت ہے رب کی اسی طرح دیکھیں انفال سے: تیار رکھو ان کے لئے (رمی کی) قوت اور پالتو گھوڑے بھی جہاں تک بھی ہو قوت تم اس کے وسیلے سے ڈراؤوگے عدو کو اللہ کے بھی اور خود اپنے بھی عدو کو اور ان کے سوا اور ہیں تم کو نہیں جنکا ہے علم، فقط علم ہے اللہ کو ان کا انسان سے دیکھیں: انساں پہ کبھی آیا زمانہ بھی ہے کوئی وہ ذکر کے قابل بھی نہیں چیز تھا کوئی ہم نے ہی تو انسان کو تخلیق کیا ہے اک نطفہء ممزوج سے، (ترکیب دیا ہے) پرکھینگے اسے (دیکے کبھی غم کبھی راحت) کہ ہم نے دیا اس کو سماعت و بصارت ہم نے تو اسے (جینے کا) رستہ ہے دکھایا یا شکر کرے یا وہ کرے کفر (بتایا) اغلال و سلاسل کو بنا رکّھا ہے ہم نے اور آگ بھی اک، واسطے کفار کے ( ہم نے) نہ جانے کس طرح سے بات یہ دل میں مرے آئی کہ آیات کلام پاک کو اشعار میں ڈھالوں مگر یہ خوف بھی ہے کہ تمسخر تو نہیں ہے یہ کہ رب کی بے شبہ آیات کو اشعار میں ڈھالوں وضاحت آپ فرمادیں یہ جائز ہے کہ ناجائز کہ.....؟ نیز اگر یہ سعی درست ہے تو ان اصول و ضوابط کی بھی نشاندہی فرمادیں جو اس میں ملحوظ رکھے جائیں اور اگر درست نہیں تو شریعت کا حکم سر آنکھوں پر۔وجزاکم اللہ احسن الجزاء

    جواب نمبر: 176804

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:536-98T/N=8/1441

    قرآن کریم کا فی نفسہ ترجمہ ہی انتہائی ذمہ داری کا کام ہے، اس کے لیے عربیت کی پختگی کے علاوہ شریعت کے ضروری علوم سے صحیح ومعتبر واقفیت اور ترجمہ وتفسیر قرآن پاک سے مناسبت بھی اہم وضروری ہے۔ اور قرآنی آیات کے مفاہم ومطالب کو اشعار میں ڈھالنا مزید نازک کام ہے؛ اس لیے اگر آپ یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو مقامی طور پر مستند ومعتبر مفتیان کرام سے مشورہ کریں۔ ہمارے لیے صرف چند آیات کے مفہومی ترجمہ ومطلب کو سامنے رکھ کر آپ کے حق میں حتمی طور پر کچھ طے کرنا مشکل ہے۔

     باقی مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس طرح قرآن کا منثور ترجمہ جائز ہے، اسی طرح منظوم ترجمہ بھی جائز ہے بہ شرطیکہ مترجم، منثور یا منظوم ترجمہ کی صحیح اور واقعی صلاحیت رکھتا ہو؛ البتہ چوں کہ منظوم ترجمہ میں عام طور پر قرآنی کلمات کی ترتیب وغیرہ کا لحاظ نہیں ہوپاتا، اسی طرح بعض مرتبہ افعال کا ترجمہ اسما سے اور اسما کا افعال سے کیا جاتا ہے اور بعض الفاظ کا ترجمہ بر بنائے ضرورت ترک کردیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ؛ اس لیے اسے ترجمہ کے بجائے ترجمانی کہنا چاہیے۔ نیز قرآن کریم کی منظوم ترجمانی، اشاعت سے قبل کسی مستند ومعتبر اور باریک بین مفسر کو بھی دکھانی چاہیے؛ تاکہ اگر ترجمانی میں مفہوم کا کچھ رد وبدل وغیرہ ہوگیا ہو تو اس کی اصلاح ہوجائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند