عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 174922
جواب نمبر: 174922
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 397-330/H=03/1441
یہ آیت مبارکہ سورہٴ یوسف میں نہیں بلکہ سورہٴ یونس (پ: ۱۱) میں ہے اوپر والی آیاتِ شریفہ میں قرآن مجید کی عجیب و غریب رہنمائی کا ذکر چلا آرہا ہے یَا اَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ (57) یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایسی چیز آگئی ہے کہ جو (برے کاموں سے روکنے کے لئے ) نصیحت ہے اور (اگر اس پر عمل کرکے برے کاموں سے بچیں تو) دِلوں میں جو (برے کاموں سے) روگ (ہو جاتے ہیں) ان کے لئے شفاء ہے اور (نیک کاموں کے کرنے کے لئے) رہنمائی کرنے والی ہے اور (اگر عمل کرکے نیک کاموں کو اختیار کریں تو) رحمت (اور ذریعہ ثواب) ہے (اور یہ سب برکات) ایمان والوں کے لئے ہیں (کیونکہ عمل وہی کرتے ہیں پس قرآن کے یہ برکات سناکر) آپ (اُن سے) کہہ دیجئے کہ (جب قرآن ایسی چیز ہے) پس لوگوں کو خدا کے اس انعام و رحمت پر خوش ہونا چاہئے (اور اس کو دولت عظیمہ سمجھ کر لینا چاہئے) وہ اس (دُنیا) سے بدرجہا بہتر ہے جس کو جمع کر رہے ہیں (کیونکہ دنیا کا نفع قلیل اور فانی اور قرآن کا نفع کثیر اور باقی ہے) اھ تفسیر بیان القرآن: ۱/۷۰۰- ۷۰۱ (مطبوعہ: مکتبہ الحق ، ممبئی، ۱۰۲)
ان آیاتِ مبارکہ میں تو میلاد کا کہیں ذکر نہیں، معلوم نہیں کہ کون لوگ کس قسم کی میلاد کو ان آیات سے کشید کرتے ہیں؟
یہ آیات کس موقعہ پر نازل ہوئیں اس کی تو تحقیق نہیں تاہم قرآن کریم کی فضیلت و حقیقت کا بیان فصیح و بلیغ انداز میں ہونا بالکل ظاہر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند