• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 169888

    عنوان: قرآن پاك كی آیتوں میں تناقض یا تعارض کیوں ہے ؟

    سوال: میں ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہو اور اسلامیات میں ایم فل کر رہا ہوں ، مجھے میرے ایک دوست نے ایک کتاب دی ( ) کے نام سے جو کہ انگلش زبان میں ہے جس میں دعوی مصنف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ قرآن پاک میں ہے کہ "افلا یتدبرون القرآن، ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا" کہ یہ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی نے نازل کیا ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلافات ہونے تھے ، اب مسئلہ یہ ہے کہ اختلافات تو اب بھی اس کتاب میں ہیں جیسے کہ میں نے آنجناب سے ابھی ان سے متعلق دریافت کیا ہے ۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے ۔ اس کتاب میں بنیادی طور پر درج ذیل سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کو دیکھ کر ہمارے ذہن پریشان ہیں ۔ اگر آپ ہمیں مدلل اور تحقیقی جواب عنایت فرمائیں تو مجھ سمیت میری پوری کلاس اس مشکل سے نکل آئے گی۔ آیات قصدا ہم نے ساتھ مینشن نہیں کیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو آیات کا علم تو ہے ہی ، ہمیں آیات لکھنے سے ڈرتے بھی ہیں اور طوالت کا خوف بھی تھا۔ اس لیے آپ از راہ کرم ہمارے سوالات کا جواب دلائل کے ساتھ تحقیقی انداز میں بیان فرمادییں ۔ کیونکہ یونیورسٹی کا ماحول ہے ان کے ہاں دلیل اور تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔؛ (۱) قرآن پاک میں عددی اختلافات کیوں پائے جاتے ہیں؟مثال کے طور پر کہیں روزِ حشر کو ایک ہزار سال کے برابر کہا اور کہیں پچاس ہزار سال کے برابر کہا گیا ہے ۔ اس طرح کی دیگر مثالیں بھی ہیں؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے تو اس میں یہ اختلاف کیوں ہے ؟ (۲) دس ایمان والے اور بیس ایمان والے ، ان سے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ سے باہر ہے ؟ کیونکہ دس بھی ایمان والے ہیں اور بیس بھی ایمان والے ہیں اب بجائے اس کے کہ ان کے ایمان کو بڑھایا جائے ،الٹا ان کے کام کو ہلکا کیا جا رہا ہے ۔ہیں تو دونوں ایمان والے لیکن اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں "الئٰن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفاً" اب مسئلہ کا یہ حل تو دانشمندانہ نہیں ہے کہ بس جو جتنا کر سکتا ہے کر لے ! زمین و آسمان کی تخلیق میں قرآنی آیات مختلف ہیں؟ کہیں کچھ فرمایا گیا ہے کہیں کچھ، کہیں 6 دن کہیں 7 دن اور کہیں ایک ہی لفظِ کُن! ایسا کیوں ہے جب کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے حضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں ترتیبِ بیان میں اختلاف ہے ؟ جو کہ دنیا میں معتبر نہیں۔ دنیا میں تو ایک شخص ایک موقع پر ایک بات کہے اور دوسرے موقع پر اسی بات کو بدل دے (اپنا بیان تبدیل کر دے ) تو اس قابلِ اعتبار نہیں سمجھا جاتا، ہماری عدالتیں بھی ایسے شخص کا اعتبار نہیں کرتیں لیکن فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کچھ کہا جب کہ حضرت لوط علیہ السلام سے کچھ کہا۔ اگر یہ خدا کا کلام ہے تو ایسا کیوں ہے ایک ہی بات کیوں نہیں؟ ابلیس جن ہے فرشتہ؟ قرآن کے مختلف بیانات ہیں کہیں اس کو فرشتہ کہا جا رہا ہے اور کہیں اس کو جن کہا جا رہا ہے ۔ یہ تناقض یا تعارض کیوں ہے ؟ انسان کی تخلیق کس پانی سے ہوئی ؟ اس بارے میں قرآن کا واضح بیان نہیں ہے ۔ کہیں اچھلتے ہوئے پانی سے ، کہیں مٹی سے ، کہیں اپنے امر سے ، کہیں نفخ روح سے کہیں لفظِ کن سے ۔ یہ غیر واضح بیانات قرآن پاک کو کلامِ خدا تسلیم کرنے میں مانع ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ سوچنے کا عمل دماغ کرتا ہے جبکہ قرآن پاک میں سینے یا دل کا کہا گیا ہے ، یہ ظاہرہے کہ دل کا کیا کام ہے اور دماغ کا کیا کام ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ مرد و عورت کے نطفے (میں موجود کروموسومز) سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مذکر ہو گا یا مؤنث، لیکن قرآن پاک ایک لمبی مدت کے گزرنے کے بعد کہتا ہے "فجعل منہ الزوجین الذکر والانثیٰ" اگر یہ اللہ کا کلام ہے تو اللہ تعالیٰ کو پہلے سے ہی علم ہے اگر یہ بندوں کے اعتبار سے بات ہے تو بندوں کو بھی مادے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے ۔ تعالیٰ واحسن الجزآء فی الدارین

    جواب نمبر: 169888

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 822-94T/B=08/1440

    اگر آپ عربی زبان سے واقف ہیں تو تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کریں اور عربی سے واقف نہیں ہیں تو پھر معارف القرآن کا مطالعہ بغور کریں آپ کے تمام سوالات حل ہو جائیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند