عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 169810
جواب نمبر: 169810
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:671-654/sd=8/1440
قرآن کریم میں بعض مقامات پر زبر، زیر اور پیش کی غلطی سے ایسے فحش معنی پیدا ہوجاتے ہیں کہ جس معنی کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، جیسے: ﴿وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھیمَ رَبُّہ الخ﴾ میں اگر زبر کو پیش سے اور پیش کو زبر سے بدل دیا جائے،تو اس میں ایسے معنی پیدا ہوجائیں گے ؛ جن کا اعتقاد کفر ہوگا، یعنی اب معنی یہ ہوجائیں گے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ( نعوذ باللہ)اپنے پروردگار کو چند احکامات کے ذریعہ آزمایا حالانکہ صحیح معنی یہ تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پروردگار نے چند احکامات کے ذریعہ آزمایا؛ ایسے سارے مقامات کی نشاندہی اور تعیین کا موقع نہیں ہے؛ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ زیر زبر کی غلطی عموما یاد داشت کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، قصدا کوئی ایسی غلطی نہیں کرتا ہے اور اگر غلطی سے کفریہ جملہ زبان سے نکل گیا، تو اس کی وجہ سے کفر کا حکم نہیں لگتا ہے۔
نوٹ: قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں حرکات یعنی زبر زیر کا پورا خیال رکھیں، ان شاء اللہ غلطی سے محفوظ رہیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند