• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 167559

    عنوان: سورہ نور، آیت: ۳ کی تفسیر

    سوال: اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِکَةً وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْکِحُہَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ ﴿۳﴾ ترجمہ ۔ زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا بجز زانیہ یا مشرکہ کے ۔ (اور اسی طرح) زانیہ کے ساتھ بھی اور کوئی نکاح نہیں کرتا بجز زانی یا مشرک کے ۔اور یہ (یعنی ایسا نکاح ) مسلمانوں پر حرام (اور موجبِ گناہ ) کیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے ذرا تفصیل سے جواب دیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔

    جواب نمبر: 167559

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:387-345/N=5/1440

    آیت کریمہ میں زنا کی قباحت کا بیان ہے،کسی حکم شرعی کا بیان نہیں ہے، یعنی: زنا اس قدر قبیح اور برا کام ہے کہ جو شخص اس گندے فعل کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا نیک لوگوں سے کوئی جوڑ نہیں ہوتا، اس کا جوڑ اپنے جیسے برے لوگوں یعنی: بدکار مرد یا بدکار عورت سے ہوتا ہے یا اس سے بھی زیادہ برے: کافر ومشرک لوگوں سے ہوتا ہے ، وہ کسی نیک خاتون یا مرد سے نکاح کی رغبت نہیں رکھتا۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ زنا کار مرد، کسی نیک خاتون سے نکاح کے لائق نہیں ہوتا، وہ صرف اپنی جیسی بدکار عورت یا اس سے بھی زیادہ بری: مشرکہ عورت سے نکاح کے لائق ہوتا ہے۔ اسی طرح بدکار عورت کسی نیک مرد سے نکاح کے لائق نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ اپنے جیسے بدکار مرد یا اس سے بھی زیادہ برے: مشرک مرد سے نکاح کے لائق ہوتی ہے ۔ اور آخری جزو میں یہ بیان کیا گیا کہ زنا کاری ایمان والوں پر حرام کی گئی ہے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا: ذلک سے مراد ایسا نکاح ہے ، یعنی: ایمان والوں کا نکاح کسی مشرک یا مشرکہ سے حرام ہے اور (مسلمان)زانی یا زانیہ سے نکاح حرام ہونے کا مطلب: حرام کی طرح ہے، یعنی: کامل ایمان والوں كو کسی بدکار عورت یا مرد سے نکاح نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر کسی نے کرلیا تو وہ نکاح ہوجائے گا (روح المعانی، ۱۸: ۸۴، ۸۹، اور تفسیر ہدایت القرآن، ۶: ۳۰، ۳۱، وغیرہ)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند