• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 160204

    عنوان: بعض اسکولوں میں رائج کیا گیا قرآن فہمی کے ایک کورس کا حکم

    سوال: سوال:undersatandig of qur'an کے نام سے ایک کورس کچھ اسکولوں میں شروع ہوا ہے ،غیر مقلدین،جماعت اسلامی اور فری میسن ذہنیت کے لوگ جس کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کررہے ہیں،اور مالی تعاون بھی دیتے ہیں ،جس میں عربی لغت کے کچھ الفاظ اور صرف صغیر وکبیر کی گردانیں بچوں کو اشارات کے ساتھ رٹاکر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس سے آپ قرآن کا ترجمہ بآسانی کر سکوگے ، اور اعداد وشمار کی روشنی میں فیصد نکالا جاتا ہے کہ یہ الفاظ یا فلاں گردانیں یاد ہوگئیں تو اتنا فیصد قرآنی آیات کا ترجمہ آپ کوآگیا تو اب پوچھنایہ ہے کہ کیا صرف چند الفاظ لغت اور گردانوں سے قرآن فہمی کا دعوی کرنا اور نونہالوں میں اس کو فروغ دینا شرعا کہاں تک درست ہے ؟ قرآن کاترجمہ اور تفسیر کے لئے اہل سنت والجماعت کے نزدیک جو حدود وقیود ہوں؟ ان پرتفصیلی روشنی ڈالئے ۔

    جواب نمبر: 160204

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:730-124T/N=10/1439

     قرآن مجید اللہ تعالی کا نہایت عظیم الشان ومقدس وپاکیزہ کلام ہے، اس کی صحیح مراد جاننے اور سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان کی معمولی گرامر اور چند الفاظ کے معانی کا جان لینا ہرگز کافی نہیں، اس کے لیے باقاعدہ عربی زبان اور اس کے لیے جن جن علوم کی ضرورت ہے، ان سب کا جاننا ضروری ہے؛ ورنہ آدمی صحیح راستہ سے بھٹک کر گمراہی کے راستہ پر لگ جاتا ہے، اگر صرف معمولی عربی کے ذریعہ قرآن کریم کا سمجھنا ممکن ہوتا تو اللہ تعالی کو قرآن کریم کے ساتھ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ونبی بناکر بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی، صرف قرآن کریم نازل کردیا جاتا اور لوگ اسے پڑھ کر اور سمجھ کر اس پر عمل کرتے۔ ذیل میں قرآن فہمی کے سلسلہ میں چند اہم ضروری نکات ذکر کیے جاتے ہیں، جن سے اچھی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ کے یہاں بعض اسکولز وغیرہ میں Understanding Of Quran(قرآن فہمی)کے نام سے جو کورس شروع کیا گیا ہے، وہ امت مسلمہ اور نونہالان اسلام کے حق میں مفید ہے یا مضر؟

    (۱): قرآن کریم عربی زبان میں ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں؛ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ زبان کے سلسلہ میں قرآن کریم کا معیار اس قدر بلند ہے کہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے فصاحت وبلاغت ہی کو قرآن کریم کے اصلی اعجاز کی وجہ قرار دیا ہے؛ اس لیے قرآن کریم کے الفاظ، اس کے جملوں اور اس کی ترکیبوں کے سلسلہ میں محض سطحی معلومات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ عربی لغت اور اس کے اسالیب بیان کے اعلی مآخذ پیش نظر رکھنا اور اس کی باریکیوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ جس کی تفصیل میں چند اہم باتیں یہ ہیں:

    الف: قرآن مجید کے الفاظ کی تشریح کے لیے اہل علم نے دو طریقے اختیار کیے ہیں، بعض نے تمام الفاظ کا احاطہ کیا ہے اور ان کا نام مفردات القرآن رکھا ہے، جیسے: امام راغب اصفہانی کی مفردات القرآن۔ اور ایک جماعت نے صرف مشکل لغات پر اکتفا کیا اور اس کو غریب القرآن کے نام سے موسوم کیا، اس فن پر علمائے نحو وادب نے کثرت سے کتابیں لکھی ہیں۔

    ب: عربی زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بعض مرتبہ لفظ ایک ہوتا ہے؛ لیکن صلات کے بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں، اسی طرح الفاظ کی تقدیم وتاخیر ، تعریف وتنکیر ، اور اطلاق وتقیید وغیرہ بھی معنی میں اثر انداز ہوتی ہے؛ اس لیے صلات کے بدلنے اور الفاظ کی تقدیم وتاخیر وغیرہ سے معنی میں کیا فرق ہوتا ہے؟ ان سے امور سے بھی واقفیت ضروری ہے، اس کے بغیر قرآن کے مطالب سمجھنا ناممکن ہے۔

    ج: جو لفظ جس معنی کے لیے بنایا گیا، اگر اسی میں اس کا استعمال رہے تو اس کو حقیقت کہتے ہیں۔ اور اس عام اور معروف وضع کے ذریعہ سے اس کے مناسب اور غیر معروف معنی کو ادا کیا جائے تو اس کو مجاز کہتے ہیں، قرآن مجید میں بے انتہا مجازات ہیں، قرآن کریم کی صحیح مراد جاننے کے لیے ان سب سے واقفیت ضروری ہے۔(قرآن کا مطالعہ کیسے کریں؟ ص: ۳۷- ۳۹)۔

    (۲): قرآن کریم عام طور پر اصولی کلام کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ اصولی کلام ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا ؛ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم جن مضامین ومطالب کو بیان کرتا ہے، ان سے مناسبت اور متعلقہ ضروری باتوں سے واقفیت ہو، اس لیے قرآن کریم سمجھنے کے لیے اصول دین اور علوم شریعت سے واقفیت از بس ضروری ہے؛ ورنہ آدمی محض اپنے عقل سے قرآن کریم کا مطالعہ کرکے گمراہ فرقوں کی طرح غیر اسلامی نظریات قائم کرے گا اور انھیں اپنی فہم نارسا کی وجہ سے قرآن کریم کی طرف منسوب کرکے خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔

     

    (۳): اللہ تعالی نے امت کو قرآن کریم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اس لیے عطا فرمایا ہے؛ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو قرآن کریم سمجھائیں اور ان کے سامنے اس کی تشریح کریں؛ جیسا کہ قرآن کریم میں متعدد جگہ آیا ہے اور آپ نے قولی وفعلی احادیث مبارکہ سے قرآن کریم کی تشریح فرمائی ؛ اس لیے براہ راست عربی سے قرآن سمجھنے کے لیے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے ایک بڑے حصہ کا علم بھی ضروری ہے؛ ورنہ آدمی محض عربی سے قرآن سمجھنے کی کوشش کرے گا تو لازمی طور پر وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے خلاف قرآن سمجھے گا اور اپنے سمجھے ہوئے نظریات کو قرآن کریم کی طرف منسوب کرکے اپنی اور دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا۔

    (۴):قرآن کریم میں بہت سی مرتبہ ایک لفظ متعدد مقامات میں مختلف معنی رکھتا ہے؛ اس لیے ایک لفظ کا معنی جان کر یہ سمجھنا کہ قرآن کریم میں ہر جگہ اس کے یہی معنی ہوں گے، سخت نادانی ہے۔

    (۵): قرآن کریم کے بعض احکام ایسے ہیں جو منسوخ ہیں، یعنی: ان کی تلاوت باقی ہے اور حکم منسوخ ہوگیا ہے؛ اس لیے صحیح قرآن فہمی کے لیے ناسخ منسوخ کی فن کی واقفیت بھی ضروری ہے۔

    ان کے علاوہ براہ راست عربی زبان سے قرآن سمجھنے کے لیے اور بھی دیگر بہت سے علوم کا جاننا ضروری ہے۔

     اب آپ اندازہ لگائیں کہ جو لوگ اہل لسان نہیں ہیں، اور وہ عربی زبان سے بھی واقف نہیں ہیں؛ بلکہ ان کی اکثر زندگی عصری علوم اور دنیاوی کاموں میں گذری ہو یا ان کی زیادہ تر توجہ عصری علوم کی طرف ہو، وہ عربی کے چند الفاظ کے معانی جان کر کس طرح قرآن کریم جیسی عظیم الشان ومقدس کتاب کو صحیح سمجھ سکتے ہیں؟ بلکہ ایسے لوگ یقینی طور پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ارشادات گرامی کا مصداق ہوں گے، جس میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور ایک روایت میں فرمایا: جس نے علم کے بغیر قرآن میں کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ، اور ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور درست کہا تب بھی اس نے غلطی کی (مشکوة شریف مع شرح مرقات، ۱: ۴۴۵، ۴۴۶، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت)۔

    حضرت مولانا محمد اویس نگرامی ندویلکھتے ہیں:

    اس زمانے میں قرآن مجید سمجھنے میں کے جو درد ناک اور تکلیف دہ مناظر سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک روح فرسا منظر یہ بھی ہوتا ہے کہ عربی زبان کی چند ریڈریں پڑھ کر لوگ اپنے کو فہم قرآن اور اس سے استنباط واستناد کا جائز حق دار جاننے لگتے ہیں، یہ سخت جرأت کی بات اور انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہاپنے رسالہ ”اصول تفسیر“ میں تفسیری غلطیوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کی تفسیر محض لغت عرب سے کی ہے اور یہ لحاظ نہیں کیا کہ متکلم قرآن کی کیا مراد ہے؟ اور اس نے جس پر قرآن نازل ہوا، کیا مطلب بیان فرمایا ہے؟ اور وہ لوگ جو قرآن کریم کے اولین مخاطب تھے، کیا سمجھتے تھے؟ (صفحہ ۲۶)۔ علامہ قرطبی (۶۷۶ھ) نے اپنی تفسیر ”الجامع لأحکام القرآن“ میں فرمایا: جو شخص سماع اور نقل کی مدد لیے بغیر محض عربیت کی بنا پر قرآن کی تفسیر کرے گا، اس سے بہت سے غلطیاں ہوں گی اور وہ تفسیر بالرائے کا مرتکب ہوگا۔ (قرآن کا مطالعہ کیسے کریں؟ ص: ۲۴، ۲۵)۔

    اس لیے آپ حضرات کے یہاں قرآن فہمی کے نام سے بعض اسکولوں میں جو کورس شروع کیا گیا ہے اور غیر مقلدین اورجماعت اسلامی کے لوگوں کی طرف سے جس کی خوب حوصلہ افزائی ہورہی ہے؛ بلکہ اس کورس کے اصل محرک وسربراہ اسی قسم کے لوگ ہیں، یہ نہایت خطرناک اقدام ہے، اہل حق حضرات کو چاہیے کہ اس سے دور رہیں؛ البتہ اگر وہ قرآن کریم سے استفادہ چاہتے ہیں تو اہل حق علما میں جو تفسیر کی صلاحیت رکھتے ہوں، ان سے روزانہ یا ہفتہ میں ایک دو مرتبہ مسجد میں تفسیر قرآن سنا کریں، وہ انشاء اللہ تمام ضروری باتوں کی رعایت کے ساتھ آسان اور عام فہم انداز میں قرآنی پیغامات سے آگاہ کریں گے اور اس سے انشاء اللہ لوگوں کے ایمان وعقائد میں مضبوطی آئے گی اور گمراہ کن افکار ونظریات سے حفاظت بھی رہے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند