• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 154857

    عنوان: ’’ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء...‘‘ سے حاضر وناظر ہونے پر استدلال كرنا؟

    سوال: .... ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء...الخ الآیت.. اس آیت سے اور اس جیسی دوسری آیات جن میں شہداء کو مردہ کہنے کی ممانعت ہے اور ان کو احیاء کہا گیا ہے ...تو بعض لوگ ان آیات سے حضور صلے اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے اور حاضر و ناظر ہونے پر اسی طرح دوسرے اولیاء کے بارے میں بھی یہی عقیدت رکھتے ہیں... تو ان آیات کی تشفی بخش تفسیر بیان کریں....اور فریق مخالف کا رد بھی بیان کریں.. جلدی جواب ارسال کریں۔

    جواب نمبر: 154857

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1533-1491/L=1/1439

    اس آیت سے حضراتِ انبیاء کی حیات اسی طرح مجاہدہ نفس میں مرنے والے اولیا کو بھی معنی شہید کا درجہ دے کر اس آیت سے ان کی حیات پر استدلال کیا جاسکتا ہے؛البتہ اس آیت سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور دیگراولیاء کے حاضر وناظر ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں؛کیونکہ حیات ہرجگہ حاضروناظر کو مستلزم نہیں(یعنی جو آدمی زندہ ہو وہ ہر جگہ حاضر وناظر بھی ہو)یہ بداہت اور عقل ونقل ہرایک کے خلاف ہے،کوئی بھی معتبر عالم اس کا قائل نہیں؛بلکہ یہ شرکیہ عقیدہ ہے جس سے توبہ لازم ہے۔قال فی فتح الباری: ”وإذا ثبت أنہم أحیاء من حیث النقل؛ فإنہ یقویہ من حیث النظر کون الشہداء أحیاء بنص القرآن والأنبیاء أفضل من الشہداء“ (فتح الباري: ۶/۴۸۸، بیروت) یعنی جب نقل کے اعتبار سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شہداء زندہ ہیں تو عقل کے اعتبار سے بھی یہ بات پختہ ہوجاتی ہے کہ شہداء زندہ ہیں اور حضراتِ انبیاء علیہم السلام تو شہداء سے بہرحال افضل ہیں۔وقال فی عمدة القاری: ”غیر الأنبیاء -علیہم السلام- فإنہم لا یموتون في قبورہم بل ہم أحیاء“ (عمدة القاري: ۱۶/۱۸۵، بیروت) وقال السیوطي حیاة النبی في قبرہ ہو وسائر الأنبیاء معلومة عندنا علمًا قطعیًا کما قام عندنا من الأدلة في ذلک وتواردت بہ الأخبار․ (الحاوی للفتاوی:۲/۱۴۷)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند