• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 152852

    عنوان: ركوع میں سجدہٴ تلاوت كی نیت كرنے سے ادا ہوجائے گا یا نہیں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں سجدہ تلاوت دوران نماز امام بھول جائے پھر رکوع میں اس کی نیت کرلے تو کیا سجدہ تلاوت ادا ہوگیا اس صورت میں کہ ایک آیات کے بعد سورة پوری ہو گئی؟ اور امام نے رکوع میں نیت کرلی تو کیا مقتدیوں کی برف سے بھی ادا ہو جائے گا؟ بینواتوجرو

    جواب نمبر: 152852

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1131-1384/sd=2/1439

    صورت مسئولہ میں اگر امام نے نماز میں آیت سجدہ پڑھی اور ایک آیت کے بعد رکوع کرلیا اور رکوع میں سجدہٴ تلاوت کی بھی نیت کرلی تو اسی رکوع سے سجدہٴ تلاوت ادا ہوجائے گا، مقتدیوں کی طرف سے بھی۔ وتوٴدی برکوع صلاة إذا کان الرکوع علی الفور من قراء ة اٰیة أو اٰیتین، وکذا الثلاث علی الظاہر کما فی البحر إن نواہ أی کون الرکوع لسجود التلاوة علی الراجح۔ (درمختار زکریا ۲/۵۸۶-۵۸۷) لیکن امام کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ رکوع کے ساتھ سجدہٴ تلاوت کی نیت نہ کرے ؛ بلکہ یا تو مستقل سجدہ کرے یا آیتِ سجدہ پڑھنے کے فوراً بعد جب نماز کا سجدہ آئے تو اسی کے ساتھ سجدہٴ تلاوت کی بھی نیت کرلے ، ایسی صورت میں بالاتفاق امام ومقتدی سب کا سجدہ ادا ہوجائے گا، چاہے مقتدی نے سجدہٴ تلاوت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔

    والظاہر أن المقصود بہٰذا الاستدراک التنبیہ علی أنہ ینبغی للإمام أں لا ینویہا فی الرکوع؛ لأنہ إذا لم ینوہا فیہ ونواہا فی السجود أو لم ینوہا أصلاً لا شیء علی الموٴتم؛ لأن السجود ہو الأصل فیہا۔ (شامی زکریا ۲/۵۸۸) وفی الشامی: ہٰذا وفی القہستانی واختلفوا فی أن نیة الإمام کافیة کما فی الکافی، فلو لم ینو المقتدی لا ینوب علی رأی الخ۔ ثم قال بحثاً: والأولیٰ أنہ یحمل علی القول بأن نیة الإمام لا تنوب عن نیة الموٴتم، والمتبادر من کلام القہستانی السابق أنہ خلاف الأصح، حیث قال علی رأی فتأمل۔ (شامی زکریا ۲/۵۸۷-۵۸۸، فتاویٰ عثمانی ۲/۴۹۷) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند