• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 15230

    عنوان:

    تفسیر ابن کثیر میں پارہ 30/ سورہ تکاثر کی تفسیر میں ایک حدیث کا مطلب بیان کردیں۔ [حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے، ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں، آپ نے فرمایا ہاں، پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں خوف خدا ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھومتقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی خدا کی نعمت ہے۔ (مسند احمد)

    سوال:

    تفسیر ابن کثیر میں پارہ 30/ سورہ تکاثر کی تفسیر میں ایک حدیث کا مطلب بیان کردیں۔ [حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو حضور صلی اللہ علیہ آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے، ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں، آپ نے فرمایا ہاں، پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں خوف خدا ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھومتقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی خدا کی نعمت ہے۔ (مسند احمد)

    جواب نمبر: 15230

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1420=277/1430/ل

     

    متقی کے لیے تونگری کوئی بری چیز اس وجہ سے نہیں ہے کہ متقی شخص مال کو جہاں خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی وہیں خرچ کرے گا لایعنی اور بے کار کاموں میں خرچ نہیں کرے گا، غلط جگہ خرچ کرنے سے ڈرے گا۔ یہ چیزیں اس کے لیے خیر کا ذریعہ بنیں گی، اس کے بالمقابل جس میں تقویٰ نہیں ہوگا وہ اس کو غلط جگہوں سے صرف کرے گا،جو اس کے لیے وبال ہوگا۔ اور صحت کا تونگری سے بہتر ہونا اس وجہ سے ہے کہ صحتِ بدن عبادت کے لیے معین ہوتی ہے اور عبادت کا اجر مال سے بہت زیادہ ہے تو گویا صحت ،بڑھا ہوا مال ہوا، اور خوش نفسی خدا کی نعمت اس وجہ سے ہے کہ جس کو یہ دولت مل گئی وہ ہرحال میں مطمئن اور بوقت مصیبت صابر وقانع رہے گا دوسروں کی طرح واویلا نہیں مچائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند