• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 151904

    عنوان: کیا مختلف تفسیروں میں تطبیق جائز ہے ؟

    سوال: بندہ کو سورة التوبہ کی آیت ۱۲۲ کے متعلق ایک سوال تھا۔ تفسیر عثمانی میں علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے بڑے بہترین انداز میں آیت کی تین تفسیریں بیان فرمائی ہیں۔بندہ کا سوال یہ تھا کہ کیا ایسا جائز ہے کہ اِن تینوں تفسیروں میں تطبیق کر کے تینوں پر عمل کیا جائے ؟ بندہ کو مندرجہ ذیل تطبیق سمجھ میں آتی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اس آیت مبارکہ میں تقسیمِ کار کا اصول بیان فرمایا ہے ۔ امتِ مسلمہ کے ذمہ جہاد اور تعلیم، دو کام فرضِ کفایہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان دونوں فرائض کی ادائیگی کے لئے انفاق اور ضروریاتِ زندگی کے پورا کرنے کے لئے کسب بھی ضروری ہے ۔ چنانچہ یہ تین ذمہ داریاں ہوئیں۔ ان تین ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا اصول یہاں بیان فرمایا جس کی روشنی میں مندرجہ ذیل ترتیب بنتی ہے ۔ اول یہ کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اہلِ علم حضرات کی صحبت میں جہاد کے لئے نکلے اور دین میں تفقہ حاصل کرے جبکہ باقی لوگ مقام پر تعلیم و کسب میں مشغول رہیں۔ دوم یہ کہ مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کے لئے نکلے جبکہ باقی ماندہ لوگ اہلِ علم حضرات کی صحبت میں رہ کر دین میں تفقہ حاصل کریں۔ سوم یہ کہ مسلمانوں کے ایسے علاقے بھی ہوں گے جہاں علم کی کمی ہے ۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو چاہئے کہ اُن میں سے ایک جماعت اپنا علاقہ چھوڑ کر اہلِ علم حضرات کی خدمت میں رہ کر دین میں تفقہ حاصل کرے اور واپس آ کر اپنی قوم کو تعلیم دے ۔ :ملاحظات اول یہ کہ جہاد کے لئے نکلنا مستقل ضروری ہے چاہے اہلِ علم کی صحبت میسر ہو یا نہ ہو۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ پہلے ضروریاتِ دین کا علم حاصل کیا جائے ، پھر جہاد کے لئے نکلا جائے ، تاکہ جو لوگ جہاد کے دوران مسلمان ہو جائیں، اُنہیں ضروریاتِ دین کی تعلیم دے سکیں۔ دوم یہ کہ دین میں تفقہ حاصل کرنے کے لئے اصل چیز اہلِ علم کی صحبت ہے ، چاہے دورانِ نفر ہو یا مقام پر۔ براہ کرم اصلاح فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

    جواب نمبر: 151904

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1001-1092/N=11/1438

    علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی تفسیر کی روشنی میں جو باتیں منقح کی ہیں، وہ صحیح ودرست ہیں اور مختلف نصوص سے ثابت ہیں؛ البتہ سب باتوں کو بیک وقت آیت کریمہ کا مصداق قرار دینے کی ضرورت نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند