• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 607551

    عنوان:

    اللہ کی رحمت کے بھروسے روز گناہ کرنا ، اور روز اللہ سے معافی مانگنا ؟

    سوال:

    سوال : زید چوری خیانت اور دھوکہ دہی کے ذریعے ٹراویلس اونر کے پیسے سے دو ہزار روپے روز کے اور کبھی دو ہزار سے زیادہ چرا لیتا ہے ۔ Fatwa : 26-26/D=01/1443 مذکورہ بالا فتوے میں زید کی پوری تفصیل درج کی گئی ہے کہ کسطرح سے وہ چراتا ہے ۔ جب اسے فتوی کی روشنی میں بتایا گیا کہ وہ یہ کام غلط کرتا ہے ۔تو اپنی دلیل و دفاع میں زید نے یوٹیوب پر موجود بڑے بڑے علمائے کرام کے وہ ویڈیوز بتائیں جس میں وہ اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگنے اور اللہ تعالی سے صلح کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ جس میں مثبت سوچ کے ساتھ علماء کرام اللہ تعالی سے معافی مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں وہ مثبت سوچ کو سمجھنے کے بجائے اور صدقِ دل سے معافی مانگنے کے بجائے زید مکمل توبہ کرکے اپنے سابقہ عمل سے مکمل تائب نہیں ہورہا ہے بلکہ اپنے سابقہ اعمال دھو کا دہی چوری اور خیانت کرتا ہے اور روز چوری کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اللہ معاف فرمائے ۔زید کا کہنا ہے کہ جب تک میری چوری چل رہی ہے میں چلنے دوں گا ۔اور اللّٰہ سے روزآنہ معافی مانگ لوں گا کہ اللہ معاف فرمانے والا ہے ۔ اب زید کا اس امید کے ساتھ روزانہ چوری کرنا اور دلیل اور دفاع میں اس طرح کے بیانات سنوانا بکر کے دل میں سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے کہ مطلب اللّٰہ سے ڈر کر بکر جو چوری نہیں کر رہا ہے ۔ جو کہ بکر بھی کر سکتا ہے ۔اور روزآنہ اللّٰہ تعالٰی سے معافی بھی مانگ سکتا ہے ۔ اور بکر چونکہ یہ نہیں کر رہا ہے اس لئے اللہ تعالی بکر کے حالات نہیں بدل رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بے پناہ معاف فرمانے پر یقین کرکے چوری میں ہاتھ نہیں ڈال رہا ہے ۔ زید کے دن بدن حالات بدل رہے ہیں اور بکر بس کرانہ، پیٹرول کا خرچہ ، لایٹ بل، دواخانہ کا خرچ ہی تنخوہ میں بمشکل کر پاتا ہے ۔ تو کیا اللہ تعالی کی رحمت کے بھروسے پر اس طرح دن میں چوری کر کے رات کو اللہ تعالی سے معافی مانگ لینا اور اللّٰہ سے روز صلح کرنے کے فیوض زید اٹھا رہا ہے ۔۔کیا کتنے بھی گناہ کرنے کے بعد سود پر لون لینا ،چوری خیانت دھوکہ دہی چاہے روز کیوں نہ دیں لوگوں کو ،سیٹھ کو بس رات کو اللّٰہ سے معافی مانگ لینا کافی ہے ۔ زید بکر سے کہتا ہے کہ تمھیں اللّٰہ اسلیے نہیں نواز رہا ہے کیونکہ بکر اللّٰہ کی رحمت پر بھروسہ نہیں کررہا ہے اور وہ کام نہیں کررہا ہے جو زید کرتا ہے ۔ تو کیا روز گناہ کرکے روز معافی مانگ لیا جانا اور مکمل تائب نہ ہو نا درست ہے ۔ اور اللّٰہ کے مقربین ہونے کی دلیل ہے ۔ مذکورہ دونوں شخصوں میں زید اور بکر دونوں میں سے صحیح اور اللّٰہ کے راستے پر کون ہے ۔ بکر اللّٰہ کے ڈر سے چوری نہیں کرتا ہے ۔ اور زید اللّٰہ کی رحمت کے بھروسے پر چوری کرتا بھی ہے اور ترغیب بھی دیتا ہے ۔

    جواب نمبر: 607551

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 405-95T/D=04/1443

     گناہ پر دلیری اور جسارت کے ساتھ دانستہ گناہ کرتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا لیکن گناہ ترک نہ کرنا اور اللہ تعالی کی رحمت کے وسیع ہونے کا سہارا لینا، ڈھٹائی کی بات ہے یقینا اللہ تعالی کی رحمت بہت وسیع ہے لیکن جو نکوکار ہیں ان کے لیے اِنَّ رَحْمَتَ اللَّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ اس سے پہلے کی آیت وَادْعُوْہُ خَوْفاً وَطَمَعاً ہے جس کا مطلب ہے کہ تم عبادت کرو اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے یعنی عبادت کرکے نہ تو ناز ہو نہ مایوسی ہو۔ بیشک اللہ تعالی کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے دعا اور توبہ بھی ایک عبادت ہے لیکن جس کی حقیقت یہ ہے کہ گناہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ کرے اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کرے اگر یہ بات توبہ میں نہیں پائی گئی تو وہ حقیقی توبہ نہیں ہوئی بلکہ عیاری ہوئی جو اللہ تعالی کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔

    اللہ تعالی کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ بلاشبہ اللہ تعالی کی گرفت بہت سخت ہے پس اللہ تعالی سے پکی سچی توبہ کرنا چاہئے تبھی مغفرت ہوگی اور گناہوں کی نحوست سے آدمی بچ سکے گا۔

    زید کو تعلیم کے ساتھ تربیت کی سخت ضرورت ہے پس اسے چاہئے کہ کسی عالم شیخ کامل سے رابطہ قائم کرے اور اپنے حالات اور دل کی چوری ان کے سامنے ظاہر کرکے اپنی اصلاح کرائے۔ اللہ تعالی نگاہوں کی چوری اور آدمی جو کچھ دل میں چھپاتا ہے سب سے باخبر ہے پس قلب و نگاہ کے اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ نیتیں درست ہوں اور اللہ تعالی کے ساتھ معاملہ صحیح ہو اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوَادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْوٴُلاً۔ بیشک کان آنکھ اور دل سب (کو چوری اور خیانات سے بچانا ضروری ہے) سب کے بارے میں کل قیامت میں سوال کیا جائے گا۔

    احکام الٰہیہ میں بے جا تاویلات بھی قلب و نظر کی چوری ہے کسی اللہ والے سے رابطہ کرکے اس سے اصلاح کرائیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند