• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 607097

    عنوان:

    ذکر جہری کا حکم

    سوال:

    ذکر بالجہر کن صورتوں میں جائز ہے اور کن صورتوں میں ناجائز؟

    جواب نمبر: 607097

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:88-83/B-Mulhaqa=4/1443

     محقق علماء کا مسلک یہ ہے کہ ذکر دونوں طرح جائز ہے ، سراً بھی اور جہراً بھی، امام مسلم نے حضرت عبداللہ ابن زبیر سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز کے بعد بلند آواز سے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک و لہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر الخ، پڑھا کرتے تھے (مسلم: رقم594) اس طرح اور بھی کئی روایات سے ذکر جہر کا ثبوت ملتا ہے ۔ تفصیلی دلائل حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے ، امداد الفتاوی (5/167- 168، مطبوعہ کراچی) میں، کتاب السلوک کے تحت ایک مفصل فتوے کے ذیل میں بیان فرمائے ہیں ۔مختلف حالات و مواقع کے اعتبار سے افضلیت بدلتی رہتی ہے ،کہیں آہستہ ذکر کرنا افضل ہے اور کہیں جہراً، اگر کوئی پابند شریعت شیخ کامل مرید کے حالات کے پیش نظر ذکر جہر کیلئے کہے ہو تو اس کے لیے جہراً ذکر کرنا بلاشبہ جائز ہے ؛ البتہ ذکر جہری کرتے وقت یہ لحاظ کرنا ضروری ہے کہ کسی شخص کی نیند میں خلل یا کسی اور معقول تکلیف کا موجب نہ ہو، نیز ذکر جہری کو عبادت مقصودہ نہ سمجھا جائے ، بلکہ اسے علاج کے طور پر اختیار کیا جائے ۔ دوسروں کے لیے نیند میں خلل یا کسی تکلیف کا باعث بننے کی صورت میں ذکر جہری کرنا شرعا منع ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند