متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 606859
خصال باطنہ کا مرکز دل ہے یا دماغ؟
سوال : منقولات* میں صراحتاً وارد ہے کہ ہم دل سے یقین کرتے ہیں، بلکہ تمام خصال باطنیہ دل میں ہوتی ہیں۔ جب کہ یہ بات حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ۔ دنیا میں ہر سال قریباً 3500 دل بدلے جاتے ہیں، جن میں سے آدھے سے زیادہ امریکا میں ہوتے ہیں، و باقی اس کے علاوہ میں جن میں بھارت بھی شامل ہے ۔ لیکن کبھی بھی، کہیں بھی، کسی کی بھی، کوئی بھی خصلت باطنی نہیں بدلتی۔ حب کبھی کسی انسان سے MRI کی مشین میں سوچنے ، یاد کرنے ، فیصلہ لینے ، تصور کرنے جیسے اعمال کراے جاتے ہیں تو حرکت و سرگرمی ہمیشہ دماغ میں دیکھی جاتی ہے ، ہر عمل باطنی کے لیے ایک الگ مخصوص حصہ میں، نہ کہ دل میں۔ یہ دونوں برہانِ تجریب ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری تمام خصال باطنیہ دماغ میں ہیں، نہ کہ دل میں۔ اور برہان سے مراد برہان حقیقی ہے یعنی وہ دلیل جس کو ماننے پر عقلاء کی عقل مجبور ہو، یعنی وہ اس کے انکار پر قادر نہ ہو سکیں جیسے شراب کا نشہ آور ہونا وغیرہ۔ اور یہا منقول میں تاویل نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہاں تاویل کرنے سے سلف کا عقیدہ غلط ثابت ہو جائے گا، اور یہ بھی لازم آئے گا کہ جو کچھ اعتقاد ہم آج رکھتے ہیں کل کو وہ بھی بدل سکتا ہے ، یعنی تمام کے تمام منقولات محتمل فیہ ہو جائیں گے ۔ اور اگر کسی نے تجریب کا انکار کیا تو لازم ہے اس پہ کہ تواتر کا بھی انکار کرے جس سے ثبوتِ قرآن کا انکار لازم ہے ۔ اور جو ایک برہان کا انکار کرے مثلا تجریب کا اور دوسرے کو تسلیم کرے مثلا تواتر کو، تو اس کا یہ قول محض اس کا مسلّم ہوا، لہذا اعتماد کے لایق نہیں۔ تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ منقولات معقول کے خلاف کیوں ہیں؟ و اس کا مطلب کیا ہے ؟ کیا منقولات میں بعض باتیں کاذب ہیں؟ مہربانی کرکے جواب برہان سے دیں، اور استقراء و تمثیل و جدل و سفسطہ کا استعمال نہ کریں، کیونکہ مجھے تحقیقی جواب چاہیے ہے ۔ مجھے سچ جاننا ہے ۔ * تفسیر رازی سورة الشعراء 193.
جواب نمبر: 606859
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:2-22T/B-Mulhaqa=3/1433
خصال حسنہ یا قبیحہ کا منبع دل ہے یا دماغ تو اس سلسلے میں ہمارے نزدیک وہی بات راجح ہے جو بے شمار آیات واحادیث سے ثابت ہے یعنی ان کا اصل منبع اور سر چشمہ دل ہے نہ کہ دماغ ؛ ہاں دل و دماغ کے درمیان خصوصی ربط ہے ۔ واضح رہے کہ منقولات بہ شرط ثبوتِ صحیح اصل حجت ہیں ، اگر کسی امر ممکن پر صحیح نقلی دلیل قائم ہوجائے تو اس کا قبول کرنا واجب ہے ۔آپ نے جس برہان تجریب کا حوالہ دیا ہے ایک تو یہ پرانی تحقیق پر مبنی ہے ، جدید تحقیق کے مطابق سائنسی نقطہ نظر سے بھی دل کے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے ، وہ صرف خون پمپ کرنے والا ایک عضو نہیں ہے ، ثانیا عرض ہے کہ اس تحقیق کا مدار اس پر ہے کہ ان سائنس دانوں کو دل میں سوچنے سمجھنے کی کوئی صلاحیت دریافت نہیں ہوئی جب کہ دماغ میں یہ صلاحیت دریافت ہوئی تو گویا دل کے بارے میں ان کا استدلال عدم ِعلم پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ عدمِ علم سے علمِ عدم پر استدلال نہیں کیا جاسکتا، یہ مسلمہ اصول ہے ۔ )تفصیل کے لیے دیکھیں: اسلام اور عقلیت اور الانتباہات المفیدہ : از حضرت اقدس تھانوی (رح)) “علم وادراک کا سر چشمہ دل ہے یا دماغ” اس موضوع پر ایک کتاب حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے ملاحظے کے بعد ، پڑوسی ملک سے شائع ہوچکی ہے ، اس میں زیر بحث موضوع پر تفصیلی کلام نیز آپ کے پیش کردہ اشکالات کا شافی جواب موجود ہے ، اسے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے یا کسی ذریعے سے حاصل کرکے پڑھ ڈالیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ حضرت تھانوی (رح) کی محولہ بالا دونوں کتابوں کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند