• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 600709

    عنوان:

    کیا ووٹ ببیعت کی دوسری شکل ہے؟

    سوال:

    مفتیان صاحبان ۔ عرض ہے کہ صحا بہکے دور میں امیر کے انتخاب کے لیے بیعت کا طریقہ رائج تھا ۔ مگر آج کل انتخابات کا طریقہ اختیار کیا جا تا ہے ۔ تو کیا آج کل جو ووٹ بکس میں ڈالا جاتا ہے کیا یہ بھی بیعت کی دوسری شکل ہے ۔ کیونکہ اس ووٹ کے زریعے میں اس فرد کے نظریے سے اتفاق کرتا ہوں اور اُس فرد کو اپنا امیر منتخب کرتا ہوں۔ آپ صاحبان سے وضاحت درکار ہے ۔

    جواب نمبر: 600709

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 100-68/D=03/1442

     بیعت دینی امور میں اتباع کے لئے کی جاتی ہے۔ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ لکھتے ہیں بیعت کی حقیقت التزام ہے طالب کی طرف سے اتباع کا اور شیخ کی طرف سے تعلیم و مشورہ کا۔ (امداد الفتاوی: ۵/۲۳۵)

    امیر المومنین کے لئے بیعت کرنے میں موافق شرع امور میں اتباع کرنے کا وعدہ اور معاہدہ ہوتا تھا۔

    موجودہ وقت میں ووٹ دینا بیعت کے درجہ میں ہرگز نہیں ہے؛ البتہ نمائندہ بنانے کی تائید و تصدیق ہوتی ہے کہ ووٹر اس بات کی شہادت دیتا ہے ہمارے نزدیک یہ شخص (امیدوار) اس کام کی قابلیت رکھتا ہے اس میں دیانت اور امانت بھی موجود ہے۔ دوسری حیثیت ووٹر کی یہ ہے کہ وہ امیدوار کے بارے میں سفارش کرتا ہے کہ اسے یہ منصب دے دیا جائے ہم اس کی سفارش کرتے ہیں۔

    مزید تفصیل کے لئے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کا رسالہ ”انتخاب میں ووٹر اور امیدوار کی شرعی حیثیت“ کا مطالعہ کریں، یہ رسالہ جواہر الفقہ حصہ پنجم کا حصہ ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند