• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 48990

    عنوان: کیا بزرگوں کے ذریعے سے ان کے مریدین تک نور منتقل ہوتا ہے، ان کے سینے میں سے؟

    سوال: کیا بزرگوں کے ذریعے سے ان کے مریدین تک نور منتقل ہوتا ہے، ان کے سینے میں سے؟

    جواب نمبر: 48990

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1559-519/L=1/1435-U جی ہاں! منتقل ہوتا ہے، بشرطیکہ بزرگ متبع سنت ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب حرا میں تھے توحضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اورتین مرتبہ فرمایا ”اقرأ“ دو دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ”ما أنا بقارئ“ مگر تیسری بار حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سینہ سے لگاکر چھوڑا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنا شروع کردیا، بخاری کی اس حدیث کی شرح میں عارف کامل،محدث اجل عبداللہ بن ابی حمزہ نے فرمایا ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأخذني فغطني․․․ وفیہ دلیل علی أن اتصال جرم الغط بالمغط وضمہ إلیہ وہوإحدی الطرق الإفاضة یحدث بہ في الباطن قوة نورانیة مشعشعة تکون عونا علی حمل ما ألقی الیہ لأن جبرئیل لما اتصل جرمہ بذات محمد سنیة فحدث لہ ما ذکرناہ بذلک وہو ما ألقی إلیہ وفوقہ سمع خطاب الملک ولم یکن لہ قبل ذلک وقد وجد أہل المیراث من الصوفیة المتبعین المحققین“ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دبانے والے کا اتصال اس کے جسم سے ہوا جسے بھینچا گیا، جو ایک طریقہ حصول فیض کا ہے تو اس جسم کے اتصال سے باطن میں ایک قوت نورانیہ پیدا ہوجاتی ہے اوراس قوت سے دوسرا شخص اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل ہوجاتا ہے چنانچہ جب جسم جبریل علیہ السلام سے حضور اکرم صیف اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے متصل ہوا تو اس میں وہ کیفیت نورانیہ پیدا کردی جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ مزید یہ کہ فرشتہ کی آواز سنی جو اس سے پہلے نہ سنی تھی اور اہل میراث متبعین سنت محققین صوفیہ نے یہی طریقہ حاصل کیا ہے۔ (بہجة النفوس) مشکاة شریف میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کا واقعہ ان کی زبانی مذکور ہے فسقط في نفسي من التکذیب فلما رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما قد غشیني ضرب في صدري ففضت عرقًا وکأني أنظر إلی اللہ (مشکاة: ۱۹۲) قال صاحب المرقاة: فلما ناولہ برکة یدي النبي صلی اللہ علیہ وسلم زال عنہ الغفلة والإنکار وصار في مقام الحضور والمشاہدة (مرقاة)”ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام کی تکذیب زمانہٴ جاہلیت سے زیادہ میرے دل میں واقع ہوگئی، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میں پسینہ پسینہ ہوگیا، حالت یہ ہوگئی کہ گویا میں اپنے رب کو دیکھ رہا ہوں“۔ صاحب مرقاة فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی برکت سے غفلت زائل ہوگئی اور فوراً ہی مقام حضور ومشاہدہ حاصل ہوگیا۔ فتح الباری میں ہے: ”وقال ہذا القدر من الحدیث أصل عظیم من أصول الدین وقاعدة مہمة من قواعد المسلمین وہو عمدة الصدیقین وبغیة السالکین وکنز العارفین وآداب الصالحین وقد ندب أہل التحقیق إلی مجالسة الصالحین لیکون ذلک مانعا من التلبیس بشیٴ من النقائص احترامًا لہم واستحیاء منہم“فرمایا یہ حدیث (جبرئیل یا حدیث احسان)اصول دین میں سے عظیم اصل ہے اور قواعد مسلمین میں سے ایک اہم قاعدہ ہے، اور یہ حدیث صدیقین کی معتمد علیہ اور سالکوں کی مطلوبہ چیز ہے اور عارفوں کا خزانہ اور صلحاء کے آداب میں سے ہے،حقیقت یہ ہے کہ علماء محققنا نے صلحاء کی مجالس کی ترغیب دلائی ہے تاکہ ان اولیاء اللہ وصلحاء کی مجلس عیوب ونقائص پیدا ہونے میں رکاوٹ بن جائے جس کی وجہ ان صلحاء کا احترام یا ان سے حیاء کرنا ہوگا۔ اور تحفةالقاری میں ہے ”فأخذني وغطني أي ضمني وعصرني قال علماء الشریعة کان ہذا الغط ضربا من التنبیہ لإحضار القلب لیقبل بکلیة إلی ما یلقی إلیہ وعلیہ وقال علماء الطریقة کان ہذا الغط توجہا باطنیا لإیصال الفیض الروحاني وتغلیب الملکیة عن البشریة“ پس جبرئیل نے مجھے پکڑا اور سینہ سے لگایا اور بھینچا، علمائے ظواہر کہتے ہیں کہ یہ بھینچنا دل کو متوجہ کرنے کے لیے ایک قسم کی تنبیہ تھی کہ جو چیز قلب پر القا ہو اسے قبول کرلے، اور علمائے طریقت کہتے ہیں کہ یہ سینے سے لگانا حصول فیض کے لیے باطنی توجہ تھی اور بشریت پر ملکیت کو غالب کرنا مقصود تھا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند