• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 21278

    عنوان:

    دین میں سلسلہ ضروری کیوں ہے؟کوئی اپنے آ پ کو صوفی کیوں کہتا ہے؟ ہمیں ذکر(ورد) کرنے کے ضرورت کیوں پڑتی ہے؟جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو یہ سکھا ئے نہیں؟

    سوال:

    دین میں سلسلہ ضروری کیوں ہے؟کوئی اپنے آ پ کو صوفی کیوں کہتا ہے؟ ہمیں ذکر(ورد) کرنے کے ضرورت کیوں پڑتی ہے؟جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو یہ سکھا ئے نہیں؟

    جواب نمبر: 21278

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 759=156tb-5/1431

     

    ہرشخص پر اپنی اصلاح فرض عین ہے اوراس کی فرضیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، نیز اصلاح کو فرائضِ رسالت سے شمار کیا گیا ہے، چنانچہ ارشادِ باری ہے یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ پھر اصلاحِ نفس کے متعدد طریقے ہیں جو لوگوں کے احوال اور مرورِ ایام کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، من جملہ ان طریقوں کے ایک اصلاحِ نفس کا سلوک اور تصوف ہے لہٰذا اس کی فرضیت بھی ایک درجہ میں ثابت ہوئی، اور جو شخص اس طریق کو اختیار کرکے اپنی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی اصلاح کرلے اس کو متصوف اور صوفی کہتے ہیں، اس طریق کو اختیار کرنے کا مقصد اپنے آپ کو صوفی کہلوانا نہیں ہے، بلکہ اصلاح ہے اور جہاں تک اوراد ووظائف کا تعلق ہے تو چوں کہ اللہ کے ذکر سے قلب پر انوار کی تجلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے رذائل یعنی حسد، بغض، کبر، عداوت، حب دنیا، حب جاہ، عبادت میں سستی، شہوات نفسانی، ریا، سمعہ وغیرہ دل سے جلدی زائل ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ پر عبادات میں لذت گناہوں سے توبہ، رضا بالقضاء، شکرِ نعمت اور مصیبت میں صبر وغیرہ جیسے فضائل آجاتے ہیں، اس لیے اس راہ کے چلنے الے کو اَوراد و وظائف کا پابند کیا جاتا ہے اور ذکر کی تعلیم کتاب وسنت سے ثابت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَاَصِیْلًا (سورہٴ احزاب: ۴۱-۴۲ پارہ ۲۲) دوسری جگہ ارشاد ہے : وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذَّاکِرَاتِ (سورہٴ احزاب: ۳۵، پارہ ۲۲) ایک اور جگہ ارشاد ہے: اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ اور ارشاد ہے: اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلَی جُنُوْبِہِمْ (الآیة) (سورہٴ آل عمران: ۱۹۱/ پارہ ۴) اور احادیث میں اللہ کے ذکر کے بے شمار فضائل وارد ہیں بہ طور نمونہ ایک دو حدیث ذکر کی جاتی ہیں، ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ احکام تو شریعت کے بہت سے ہیں ہی، مجھے کوئی ایسی چیز بتادیجیے جس کو میں اپنا دستور بنالوں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاَ یزال لسانک رطبًا من ذکر اللہ کہ اللہ کے ذکر سے تو ہروقت رطب اللسان رہے اور ایک لمبی حدیث میں جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، یہ الفاظ وارد ہیں: وعلیک بتلاوة القرآن وذکر اللہ فإنہ ذکر لک في السماء ونور لک في الأرض․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند