متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 158881
جواب نمبر: 158881
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:693-107T/sn=7/1439
اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ کسی شخص سے بیعت ہونا شرعاً فرض یا واجب نہیں ہے؛ ہاں اصلاحِ باطن ضروری ہے، اکر کوئی شخص حضراتِ علماء سے قرآنِ کریم اور حدیث وفقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کرکے اخلاص کے ساتھ کما حقہ احکام شریعت پر عمل کرتا ہے تو وہ شرعاً کسی درجہ میں بھی قابل ملامت نہیں ہے؛ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی سے اصلاحی تعلق قائم کیے بغیر آدمی کی اصلاح مشکل ہوتی ہے؛ اس لیے آدمی کو کسی کے ہاتھ پر بیعت ضرور ہوجانا چاہیے، علماء اور مشائخ سے ارتباط کے بغیر صرف تبلیغی جماعت سے جڑکر آدمی کی مکمل اصلاح مشکل ہے؛ کیونکہ اس کا میدان محدود اور جزوی ہے، اصلاحِ کامل کے لیے جن چیزوں کی طرف توجہ ضروری ہوتی ہے تبلیغی جماعت میں ان تمام چیزوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ حضرت اقدس تھانوی رحمہ اللہ نے امداد الفتاوی: ۵/ ۲۴۷، کتاب السلوک، ط: کراچی) میں تحریر فرمایا: خلاصہ یہ کہ بیعت معتادہ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں؛ لہٰذا اس کا درجہ علماً یا عملاً بڑھانا مثلاً اس کو شرط نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلو فی الدین اور اعتداء حدود ہے، اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو اور خود علم دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے؛ البتہ تجربہ سے کلاًّ یا اکثریًّا مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلوب ہے وہ بدونِ اتباع وتربیت کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے ساتھ عادةً حاصل نہیں ہوتا؛ مگر اس اتباع کے لیے بھی صرف التزام کافی ہے، بیعت متعارف شرط نہیں (امداد الفتاوی: ۵/۲۴۷، ط: کراچی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند