متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 155366
جواب نمبر: 155366
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:66-47/D=2/1439
قرآن میں ارشاد ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا یعنی وہ شخص فلاح یاب ہوا جس نے نفس (قلب) کا تزکیہ کرلیا، تزکیہ کا مطلب ہے اخلاق رذیلہ: کبر، حسد، حرص، حب دنیا، غضب، شہوت، ریا وغیرہ دور کرکے اخلاق فاضلہ (حمیدہ) اس میں پیدا کرنا یعنی تواضع، صبر شکر، قناعت، اخلاص، عضب وہ شہوتمیں اعتدال یاخلافِ شرع جگہ استعمال کرنے سے اجتناب وغیرہ صفات کا پیدا کرنا۔ اس کے لیے تدبیر، علاج یا مجاہدہ وغیرہ جس علم کے ذریعہ کیا جاتا ہے اسے تصوف، تزکیہ، فقہ باطن، علم قلب اور احسان کہتے ہیں اس علاج وتدبیر کے لیے صحبت صالحین نہایت ضروری ہے جس کے لیے قرآن میں فرمایا گیا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ دوسری لفظوں میں یہ کہ جس طرح قرآن میں نماز ادا کرنے زکاة دینے روزہ رکھنے کا حکم کیا گیا اسی طرح صبر وشکر قناعت اختیار کرنے اورخوف وخشیت الٰہی پیدا کرنے کی تاکید کی گئی ہے؛ لہٰذا ان باتوں کا پیدا کرنا بھی فرض ہوا، جس علم میں ان چیزوں کے پیدا کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہو اسی کو تصوف کہتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند