• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 153106

    عنوان: گناہوں سے كیسے بچا جائے؟

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری عمر ۳۱ سال ہے ، منگنی ہوئی ہے اور کوشش کر رہا ہوں کہ جلد ازجلد شادی ہو جائے ۔ الحمد للہ، میں مسلمان ہوں، ۴ ماہ لگائے ہیں، سنت داڑھی، عمامہ ، روزانہ ایک سپارہ ، سورة الم سجدہ، یٰس، الرحمٰن، الواقعہ، الحدید، الملک، ۲۰۰ یا ۳۰۰ بار تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، عصر سے مغرب یا عشاء تک مسجد کے اعمال کی بھی تو فیق اللہ سبحانہٰ نے عطا کر رکھی ہے ۔ اور میں بد نظری اور مشت زنی جیسے گناہوں میں مبتلا ہوں۔ میری توبہ ۱۵ تا ۲۰ دن بمشکل رہتی ہے ۔ جب گناہ ہو جاتا ہے ۔ توبہ کرتا ہوں۔اور کبھی نہ کرنے کا عزم بھی کرتا ہوں۔ حضرت، بہت کوشش کے باوجود ابھی تک ان سے خلاصی نہ ہوئی ۔ حدیثِ پاک میں ان پر جو وعیدیں ہیں ان کو بھی پڑتا ہوں مگر گناہ کے وقت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے بھوکا کھانے کو دیکھ کر۔ (۱) ایک تو یہ کہ ان گناہوں سے کیسے بچا جائے ۔ اگر اس حالت میں موت آ گئی تو کیا بنے گا؟ (۲) دوسرا یہ کہ دفتر میں ایک جگہ مصلٰی ہے ملازمین ظہر ادا کرتے ہیں۔ وہاں اکثر امام نہیں ہوتے ۔ لوگ مجھے امامت کو کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ امام اپنی موجودگی میں بھی بعض اوقات مجھے امامت پر مجبور کرتے ہیں۔ پھر امامت کرانی پڑتی ہے ۔ اور بعد ازاں تعلیم بھی کرانی پڑتی ہے ۔ اکثر ملازمین کی داڑھی نہیں ہا مشت سے کم ہے ۔ کچھ بغیر داڑھی والے ، یا ایک مشت سے کم والے جماعت کرانے کے خواہش مند ہیں۔اور وہ نیک بھی ہیں۔ چونکہ لوگ مجھے منتخب کرتے ہیں میں کسی اور کو جس کا ظاہر بھی سنت والا نھیں منتخب نہیں کرتا۔ اور جماعت کرا لیتا ہوں۔ بعد یا پہلے میں دو نفل پڑھ کر جماعت کی قبولیت ، اللہ کے اس دین ،اور اپنے گناہوں سے توبہ بھی مانگتا ہوں۔ حدیث پاک میں ان قبیح افعال پر سخت وعید آئی ہے اور میں کتنا بد بخت ہوں کہ ان گناہوں میں مبتلا ہوں۔ فاسق و فاجر کی امامت مکروہ ہے ۔ ایسے میں کیا کروں۔ کیا عمامہ(پگڑی) رکھنا چوڑ دوں؟ حضرت مجھے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے ۔ امامت کرانے سے کیسے بچوں؟ کیا لوگوں کو ان گناہوں کے بارے آگاہ کردوں۔ یا جماعت سے نماز نہ پڑھوں؟ اور جو نمازیں میں نے امام ہوتے پڑھائی ہیں انکا کیا حکم ہے ؟ نوٹ: مجھے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے ۔ اور اس زندگی میں کسی چیز کی تمنا نہیں، بس چاھتا ہوں ایمان پر خاتمہ ہو جائے ۔ مگر بھوک اور شہوت کنٹرول میں نہیں۔

    جواب نمبر: 153106

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1178-1062/sn=11/1438

    (۱) گناہ سرزد ہوجانے پر فوراً توبہ کرلینا بہت اچھی بات ہے، یہ ایمان کی علامت ہے، مذکور فی السوال گناہ اور بری عادت سے بچنے کے لیے آپ درج ذیل امور پر عمل کریں، ان شاء اللہ یہ عادت چھوٹ جائے گی۔

    (الف) ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے گناہوں سے بچانے کے لیے دعا کیا کریں۔

    (ب) جتنی جلدی ہوسکے شادی کرکے بیوی کو گھر لائیں۔

    (ج) اپنے آپ کو انٹرنیٹ سے ہمیشہ دور رکھیں۔

    (د) فارغ اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہٴ کرام کی زندگیوں اسی طرح اولیائے کرام کے سوانح عمریوں کا مطالعہ کریں۔

    (ھ) قریب کے کسی متبع سنت شیخ سے اصلاحی تعلق قائم کرلیں اور جب بھی اپنے اوپر کنٹرول ڈھیلا معلوم ہو شیخ سے احوال بتلاکر علاج معلوم کرلیں۔

    (۲) لوگوں کو اپنے گناہوں سے واقف کرنے کی ضرورت نہیں نیز اپنی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں، موقع آنے پر آپ ”امامت“ کرسکتے ہیں، نماز سب کی صحیح ہوجائے گی، کیونکہ گناہ سرزد ہوجانے پر جب آدمی خلوصِ نیت سے سچی پکی توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ بخش دیتا ہے اور ایسے شخص کا شمار فاسقوں میں نہیں ہوتا، بس آپ نمبر ایک کے تحت مذکور بالا امور پر عمل کرتے رہیں، گناہوں سے بچنے کی ہرممکن کوشش کیا کریں، اگر بالفرض کسی وقت گناہ کا صدور ہوجائے تو بلا تاخیر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند