• متفرقات >> تصوف

    سوال نمبر: 148050

    عنوان: بدنگاہی سے كیسے بچیں‏، نیز یہ بتائیں كہ وہ صغیرہ گناہ ہے یا كبیرہ؟

    سوال: سب سے پہلے عرض ہے کہ مجھے بہت سارے مسائل پیش آتے رہتے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس سے پوچھیں لیکن جب دارالعلوم کی سائٹ پر دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے مسائل بھی پوچھے جاتے ہیں تو خوشی ہوئی اور اب انشائاللہ آپ کے ساتھ یہ دینی تعلق رہے گا۔ (۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ انسان کی نظر کسی غیر محرم پر پڑ گئی تو یہ شخص کس درجے کا گناہ گار ہوگا؟کیا یہ گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ ؟ (۲) دوسری بات یہ ہے کہ موبائل آج کی اہم ضروریات میں سے ہے لیکن شیطان اس کو بھی ہتھیار بنا رہا ہے ۔ اب ایک شخص موبائل پر ننگی تصویریں اور ویڈیو دیکھتا ہے اور باضابطہ توبہ کرتا ہے یا نادم ہوتا ہے ، لیکن تھوڑی دیر میں پھر وہی حرکت کرتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ اکثر و بیشتر چلتا رہتا ہے ۔ توبہ کے دوران اللہ کے سامنے روتا بھی ہے آنسو بھی نکلتے ہیں، لیکن مکمل طور پر بچ نہیں پاتا اس کا علاج بتا دیں۔ (۳) نیز شخص مذکور بعض مرتبہ یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالٰی کو توبہ کرنے والا گناہ گار پسند ہے کہیں اس وجہ سے تو نہیں باربار گناہ ہو رہا ہے ،یہ سوچنا کہاں تک درست ہے ؟

    جواب نمبر: 148050

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 436-431/Sn=5/1438

    (۱) اگر اتفاقًا کسی غیرمحرم پر نظر پڑجائے اور آدمی فوراً اپنی نظر ہٹالے تو اس میں کوئی گناہ نہیں؛ البتہ قصداً شہوت کے ساتھ نظر ڈالنا گناہ ہے، حدیث میں اسے آنکھ کا زنا قرار دیا گیا ہے۔ قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- لعلّي: یا علي! لا تتبع النظرة النظرة؛ فإن لک الأولی ولیست لک الأخری․ (ترمذي رقم: ۲۷۸۱) یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: نظر کے پیچھے نظر نہ ڈالو؛ کیوں کہ تمھارے لیے پہلی نظر (جو اچانک پڑی ہے) جائز (معاف ہے) دوسری جائز نہیں۔

     ایک دوسری حدیث میں ہے: عن علقَمة بن حویرث الغفاريّ․․․ قال قال رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم: زنا العین النظر (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم ومسند بزار وغیرہ)

    (۲) اس کا علاج یہ ہے کہ آدمی بہ قدر ضرورت صرف سادہ موبائل استعمال کرے جس میں کیمرہ یا "Memory" نہ ہو اور انٹرنیٹ سے ہمیشہ دور رہے، خصوصاً تنہائی میں تو بہت بچے اور فارغ اوقات میں دینی کتب اور علماء و اولیاء کی زندگی پر مشتمل کتابوں کے مطالعے کا معمول بنائے، اور بہتر ہے کہ کسی متبع سنت وشریعت شیخ سے اصلاحی تعلق بھی قائم کرلے اور اپنے احوال بتلاکر ان سے اصلاح لیتا رہے۔

    (۳) اوپر جو کچھ لکھا گیا ہے، اس پر عمل درآمد کرے اور یہ سب نہ سوچے، اگر خدانخواستہ کبھی گناہ کا صدور بھی ہوجائے تو فوراً توبہ کرلے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند