متفرقات >> تصوف
سوال نمبر: 11964
مراقبہ کے عمل سے کیا مراد ہے کیا یہ عمل قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟
مراقبہ کے عمل سے کیا مراد ہے کیا یہ عمل قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟
جواب نمبر: 11964
بسم الله الرحمن الرحيم
فتویٰ: 777=652/د
اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات یا کسی مضمون مثلاً موت، آخرت وغیرہ کو دل سے پوری توجہ کے ساتھ سوچنا تاکہ اس کے مقتضی پر عمل ہونے لگے، مراقبہ کہلاتا ہے، یہ قلب کے اعمال مقصودہ میں سے ہے۔ قرآن وحدیث میں اس کا حکم وارد ہے۔ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ چاہیے کہ دیکھ بھال لے ہرشخص کہ کل قیامت کے لیے کیا چیز آگے بھیجی ہے۔
الإحسان أن تعبد اللّٰہ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک (رواہ مسلم) احسان یہ ہے کہ اللہ کی ایسی عبادت کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔ احفظ اللّٰہ تجدہ تجاہک (رواہ الترمذي) اللہ کا دھیان رکھو، اپنے مقابل پاوٴگے۔
مختلف چیزوں کا مراقبہ الگ الگ انداز پر ہوتا ہے، مثلاً مراقبہٴ موت، کے لیے آدمی کچھ دیر بیٹھ کر یہ سوچ لیا کرے کہ مجھے مرنا ہے اور مرکر قبر میں جانا ہے، وہاں سانپ بچھو میں یا جنت کے باغ ہیں اگر اچھے عمل ہیں تو قبر باغ ہے اور اگر برے ہیں تو سانپ اور بچھو ہیں پھر قبر سے اٹھنا ہے اور حساب کتاب کے لیے پیش ہونا ہے اور پل صراط پر چلنا ہے، اسی طرح تمام واقعات قیامت کو یاد کرلیا کرے تو ان شاء اللہ اس مراقبہ کے صحیح ہوجانے اور رسوخ پیدا ہوجانے کے بعد غلطی سے بھی گناہ نہ ہوگا۔ اسی طرح مراقبہ آخرت، مراقبہ فنا اور مراقبہٴ محبت وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان مراقبات سے تصور ناقص راسخ ہوجاتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند