• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 62371

    عنوان: بعض غیر مقلد حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ، ان کے شاگردوں نے لکھی ہے ، نہ جانے اس میں کتنی ردو بدل کی گئی ، کیا یہ ان کا اعتراض درست ہے؟

    سوال: بعض غیر مقلد حضرات یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے خود کوئی کتاب لکھی ہی نہیں ، ان کے شاگردوں نے لکھی ہے ، نہ جانے اس میں کتنی ردو بدل کی گئی ، کیا یہ ان کا اعتراض درست ہے؟

    جواب نمبر: 62371

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 106-106/M=2/1437-U بعض غیرمقلدین کا یہ اعتراض محض جہالت، یا تعصب کی بنا پر ہے جو درست نہیں، ماضی قریب کے مشہور موٴرخ حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ: اسلام میں فقہی ترتیب پر تصنیف وتالیف کا باقاعدہ رواج دوسری صدی کے وسط میں ہوا اور عالم اسلام کے خال خال علماء محدثین نے کتاب لکھی، ربیع بن صبیح متوفی ۱۶۰ھ نے بصرہ میں، معمر بن راشد متوفی ۱۵۳ ھ نے یمن میں، ابن جریج متوفی ۱۵۰ ھ نے مکہ میں، سفیان ثوری متوفی ۱۶۱ھ نے کوفہ میں، عبد اللہ بن مبارک متوفی ۱۸۱ھ نے خراسان میں، ولید بن مسلم متوفی ۱۹۴ھ نے شام میں ہشیم بن بشیر متوفی ۱۸۳ھ نے واسط میں، اور اسی زمانہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بھی کوفہ میں فقہ کی تدوین کی، اپنے تلامذہ کی ایک جماعت کو لے کر المجمع الفقہی قائم کیا اور احادیث وفقہ کا املاء کرایا، بعد میں تلامذہ نے ان کتابوں کو اپنے حلقہ درس میں روایت کی جس کی وجہ سے وہ کتابیں ان کی طرف منسوب ہوئیں پھر بھی کچھ کتابیں امام صاحب کے نام سے، باقی رہ گئیں، ابن ندیم نے ان کتابوں کے نام دیئے ہیں: (۱) کتاب الفقہ الاکبر۔ (۲) کتاب رسالہ امی البستی۔ (۳) کتاب العالم والمتعلم۔ (۴) کتاب الرد علی القدریہ۔ اس کے بعد حضرت قاضی اطہر صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی کتابوں کے بارے میں بہت سارے علماء ومحدثین کے اقوال اور گراں قدر تبصرے نقل کیے ہیں اور پھر حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: ”امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی تصانیف اور کتابوں کے بارے میں ان کے معاصر ائمہ دین کی شہادت کے بعد یہ سمجھنا کہ انھوں نے کوئی کتاب نہیں لکھی، بڑي نادانی کی بات ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام صاحب کی کتابیں کئی صدیوں تک دائر وسائر رہیں اور فقہاء ومحققین ان سے استفادہ کرتے تھے․․․ ۱۴۰ھ اور ۱۵۰ہچ کے درمیان فقہی ترتیب پر چند اماموں نے کتابیں لکھی جو بعد میں ان کے تلامذہ کی مرویات کتب میں شامل ہوگئیں اور ان کے اصلی نسخیباقی نہیں رہے، عین اسی دور میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کئی کتابیں لکھی جو ان کے نام سے مشہور اور علماء ومحدثین نے ان سے ا ستفادہ کیا، حالانکہ اس دور کے رواج کے مطابق امام صاحب کے تلامذہ نے ان کو اپنی تصانیف میں شامل کرلیا تھا، اور بعد میں ان کے نام سے منسوب ہوئیں، ان کے تلامذہ میں امام محمد اور قاضی ابویوسف کی متعدد کتابیں ہمارے زمانے میں چھپ گئی ہیں جو درحقیقت ان کے استاد کی کتابیں ہیں اور انھوں نے ان کو روایت کرکے ان میں حذف واضافہ کیا ہے اس لیے وہ ان کے نام سے منسوب ومشہور ہوئیں“۔ (دیکھئے کتاب ”مختصر سوانح ائمہ اربعہ رحمہم اللہ از مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ص ۸۵ تا ۹۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند