• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 607582

    عنوان:

    متاخرین فقہاء کا امام صاحب کے قول کے خلاف فتوی دینا کیاتقلید شخصی کے خلاف ہے ؟

    سوال:

    یہ تو امر مسلم ہے کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے تقلید کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے نہ صرف آج سے بلکہ دور صحابہ سے تقلید چلی آرہی ہے اور فقہ مدون ہونے کے بعد علمائے امت کا چار اماموں کی تقلید پر اجماع ہوگیا ہے اور چار میں سے بھی ایک امام کی تقلید لازم ہے ۔ جسکو تقلید شخصی کہاجاتا ہے تاکہ تشہی پیدا نا ہوجائے اب سوال یہ ہے کہ جب غیر منصوص مسائل میں امام اعظم ابو حنیفہ کی تقلید ضروری ہے تو بعضے مسائل میں ہم حنفی خود امام صاحب کی رائے سے انحراف کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر ہی تقلید شخصی کہاں رہی۔ مثلاً۔ امام صاحب تعلیم قرآن پر اجرت کے عدم جواز کے قائل ہیں پھر متاخرین ضرورت زمانہ کی وجہ سے جائز قرار دیتے ہیں اب ہم متاخرین کے قول کو لیکر امام صاحب کے قول کو نہیں لیتے ہیں تو کیا یہ تقلید شخصی سے انحراف ہوا یا نہیں۔ الحمداللہ میں حنفی ہوں ، غیر مقلدین کی طرف سے یہ سوال کیا جاتا ہے برائے مہربانی جواب دیکر قلب کو اطمینان بخشیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے ۔

    جواب نمبر: 607582

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:141-64/T/D-Mulhaqa=5/1443

     آپ نے سوال میں جو مثال پیش کی ہے یہ تقلید شخصی کے معارض نہیں ہے ؛ اس لیے کہ احوال زمانہ کے بدلنے کی وجہ سے متاخرین فقہائے احناف نے تعلیم قرآن پر اجرت کے مسئلے میں حضرت امام شافعی  کے مسلک پر فتوی دیاہے اور مذہب حنفی میں یہ اصول خود موجود ہے کہ تغیر زمانہ کی وجہ سے چند شرائط کے ساتھ دوسرے امام کے مسلک پر فتوی دیا جاسکتا ہے ، اصول افتاء میں ایسے مسائل کی تعبیر اس طرح کی جاتی ہے کہ اگر صاحب مذہب متاخرین کے زمانے میں موجود ہوتے تو وہ بھی یہی فتوی دیتے ، اسی طرح اگر یہ تغیرات صاحب مذہب کے زمانے میں پیش آجاتے تو ان کا جواب بھی مشائخ متاخرین کے جواب سے مختلف نہ ہوتا ، حاصل یہ ہے کہ جن مسائل میں متاخرین فقہائے احناف نے کسی دوسرے امام کے مسلک پر فتوی دیا ہے ، ان مسائل کو مذہب حنفی سے خارج نہیں مانا جائے گا اور اس کو تقلید شخصی کے معارض نہیں کہا جائے گا ، علامہ شامی کی شرح عقود رسم المفتی میں تفصیل موجود ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند