عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 605907
ائمہ اربعہ سے پہلے کس کی تقلید کی جاتی تھی ؟
اہل حدیث کی جانب سے یہ اعتراض کیا جاتاہے ائمہ اربعہ کی تقلید سے پہلے کس کی تقلید کی جاتی تھی کیا ہم تقلید کے لیے صحابہ کا انتخاب کریں یا ائمہ اربعہ کا؟
جواب نمبر: 605907
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:4-23/L=2/1443
تقلید کا وجود خیر القرون سے ہے ، حضراتِ صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی مگر ان میں اصحابِ فتوی صرف ۱۵۰کے قریب تھے جن میں سات مکثرین ہیں جنھوں نے بہت زیادہ فتوی دیے ،۲۰صحابہ متوسطین ہیں جنھوں نے کئی ایک فتوی دیے اور ۱۲۲صحابہ مقلین ہیں جنھوں نے بہت کم فتوی دیے ،ان مفتی صحابہ کرام کے ہزاروں فتاوی مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے صرف مسئلہ بتلایا ساتھ میں بطور دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور ان کے متبعین صحابہ وتابعین نے بلا دلیل ان اجتہادی فتاوی پر عمل کیا ،اسی کا نام تقلید ہے ، حضرت شاہ ولی اللہ تحریر فرماتے ہیں: ثم إنہم تفرقوا فی البلاد وصار کل واحد مقتدی ناحیة من النواحی .[الإنصاف فی بیان أسباب الاختلاف للدہلوی ص: 22) ”یعنی صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی“ مثلاً: مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینے میں حضرت زید بن ثابت، کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود، یمن میں حضرت معاذ، اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی۔ حضراتِ صحابہ کے دور میں تقلیدِ شخصی کی اصل بخاری شریف میں بھی ہے کہ:”اہل مدینہ نے اس عورت کے متعلق حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جس کو طوافِ فرض کے بعد حیض (ماہواری) آگیا (یعنی طوافِ وداع کیے بغیر وہ اپنے وطن واپس ہوسکتی ہے یا نہیں؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جاسکتی ہے ، اہل مدینہ نے کہا کہ ہم آپ کے قول (فتوی) پر عمل کرکے زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول (فتوی) کو نہیں چھوڑسکتے “ (بخاری شریف: ۳۳۷/۱) اس سے صاف ثابت ہے کہ اہل مدینہ حضرتِ زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی تقلید شخصی کرتے تھے ، پھر اہل مدینہ کے اس جواب پر حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی نکیر نہ فرمائی کہ تم تو زید ابن ثابت کی تقلیدِ شخصی اختیار کرکے مشرک یا گمراہ ہوگئے ہو۔
حضراتِ صحابہ کرام کے بعد تابعین کا دور آیا تو ہر تابعی عالم کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک ایک امام ہوگیا جن کی تقلیدِ شخصی کی جاتی تھی، مثلاً: مدینہ میں حضرت نافع، مکہ میں حضرت عطاء، یمن میں حضرت طاؤس، یمامہ میں حضرت یحی بن کثیر، شام میں حضرت مکحول، عراق میں حضرت میمون بن مہران ، خراسان میں حضرت ضحاک بن مزاحم ،بصرہ میں حضرت حسن بصری اور کوفہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کی تقلید ہوتی تھی۔اور جب چاروں مذاہب مدون اور مرتب ہوگئے تو امت کے قابل اعتبار علمائے دین کا کسی ایک امام کی تقلید پر اجماع ہوگیا، خصوصاً اس زمانے میں جب کہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے ہمتیں پست ہیں، نفس میں خواہشات کا دخل ہے اور خودرائی کا غلبہ ہے ۔ مسند الہند امام اکبر حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی معرکة الآراء کتاب”حجة اللہ البالغہ“ میں لکھتے ہیں:
أن ہذہ المذاہب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة - أو من یعتد بہ منہا - علی جواز تقلیدہا إلی یومنا ہذا، وفی ذلک من المصالح ما لا یخفی لا سیما فی ہذہ الأیام التی قصرت فیہا الہمم جدا، وأشربت النفوس الہوی وأعجب کل ذی رأی برأیہ.(حجة اللہ البالغة: ۱۵۳/۱، باب حکایة حال الناس من قبل المائة الرابعة وبعدہا، ط: مصر) حضرت شاہ صاحب اپنی دوسری کتاب عقد الجید میں فرماتے ہیں: ”اعلم أن فی الأخذ بہذہ المذاہب الأربعة مصلحة عظیمة وفی الإعراض عنہا کلہا مفسدة کبیرة“. (عقد الجید: ۳۶، باب تأکید الأخذ بمذاہب الأربعة والتشدید فی ترکہا والخروج عنہا، ط: لاہور)
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ ہم تقلید کے لیے صحابہ کا انتخاب کریں یا ائمہ اربعہ کا؟ تواس کا مختصر جواب یہ ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مذاہب مدون نہ ہوئے اور نہ ہی ان کی کتابیں موجود ہیں، حضراتِ ائمہ اور ان کے اہم تلامذہ وغیرہ نے قرآن واحادیث ور اقوال صحابہ وغیرہ کی روشنی میں مسائل مرتب ومدون کردیے ؛ اس لیے اس دور میں حضراتِ ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے گی، اب ان کے واسطے سے گویا حضراتِ صحابہ کرام کی تقلید ہوئی ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں حضراتِ ائمہ کا مرتبہ حضراتِ صحابہ کرام سے بڑھا ہوا ہے ؛ کیونکہ اہل سنت والجماعت میں کوئی مسلمان حضرات ائمہ اربعہ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ کو حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے افضل نہیں سمجھتا۔
عن عکرمة، أن أہل المدینة سألوا ابن عباس رضی اللہ عنہما، عن امرأة طافت ثم حاضت، قال لہم: تنفر، قالوا: لا نأخذ بقولک وندع قول زید .[صحیح البخاری ، رقم: 1758، باب إذا حاضت المرأة بعد ما أفاضت) وفی اعلام المؤقعین:(المکثرون من الصحابة):والذین حفظت عنہم الفتوی من أصحاب رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - مائة ونیف وثلاثون نفسا، ما بین رجل وامرأة، وکان المکثرون منہم سبعة: عمر بن الخطاب، وعلی بن أبی طالب، وعبد اللہ بن مسعود، وعائشة أم المؤمنین، وزید بن ثابت، وعبد اللہ بن عباس، وعبد اللہ بن عمر.وقال أبو محمد بن حزم: ویمکن أن یجمع من فتوی کل واحد منہم سفر ضخم قال: وقد جمع أبو بکر محمد بن موسی بن یعقوب بن أمیر المؤمنین المأمون فتیا عبد اللہ بن عباس - رضی اللہ عنہما - فی عشرین کتابا وأبو بکر محمد المذکور أحد أئمة الإسلام فی العلم والحدیث.
(المتوسطون فی الفتیا منہم):قال أبو محمد: والمتوسطون منہم فیما روی عنہم من الفتیا: أبو بکر الصدیق، وأم سلمة، وأنس بن مالک، وأبو سعید الخدری، وأبو ہریرة، وعثمان بن عفان، وعبد اللہ بن عمرو بن العاص، وعبد اللہ بن الزبیر، وأبو موسی الأشعری، وسعد بن أبی وقاص، وسلمان الفارسی، وجابر بن عبد اللہ، ومعاذ بن جبل؛ فہؤلاء ثلاثة عشر یمکن أن یجمع من فتیا کل واحد منہم جزء صغیر جدا، ویضاف إلیہم: طلحة، والزبیر، وعبد الرحمن بن عوف، وعمران بن حصین، وأبو بکرة، وعبادة بن الصامت، ومعاویة بن أبی سفیان.
(المقلون):والباقون منہم مقلون فی الفتیا، لا یروی عن الواحد منہم إلا المسألة والمسألتان، والزیادة الیسیرة علی ذلک یمکن أن یجمع من فتیا جمیعہم جزء صغیر فقط بعد التقصی والبحث، وہم: أبو الدرداء، وأبو الیسر، وأبو سلمة المخزومی،..وغیرہم.(إعلام الموقعین عن رب العالمین ۱/۱۰-۱۰)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند