• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 604207

    عنوان:

    تقلید کرنے سے عمل کا صیح اور غلط ہونا کیونکر ہے ‏، جب كہ ایك كی تقلید سے دوسرے كی نفی ہوجائے گی؟

    سوال:

    جب ایک امام صاحب ایک امر کو ثابت کریں یہ درست نہیں، دوسرا امام ثابت کریں یہ درست ہے اور ہم کسی ایک کی مان لے تو ہمارے لیے درست ہے ۔ مثلا رفع الیدین امام ابو حنفہ رح کے نزدیک نہ کرنا درست ہے ۔ جبکہ کہ اما حنبل رح کے نزدیک کرنا درست ہے ۔اب ہم رفع الیدین نہ کریں جبکہ امام حنبل رح کے نزدیک کرنا درست۔ اور اگر ہم رفع الیدین کریں تو امام ابو حنیفہ رح کے نزدیک نہ کرنا درست ۔ اب رفع الیدین یا کوئی اور امر امام بدلنے سے جائز اور نا جائزہ ہوجاتا ہے جبکہ کہ امر کو اسلام کی روح سے جائز یا ناجائزہ ہو نا چاہئے ۔

    جواب نمبر: 604207

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:842-205T/L=1/1443

     مذکورہ بالا صورت میں تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانا تو متفق علیہ ہے ،لیکن اس کے بعد رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت اور تشہد کے بعد تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کو اٹھانا ائمہ کے مابین مختلف فیہ ہے،احناف کے یہاں ان مواضع پر ہاتھ نہ اٹھانا افضل اور بہتر ہے؛ کیونکہ عند الاحناف رفع یدین والی حدیثیں منسوخ ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام نے رفع یدین ترک کردیا تھا اور صرف نیت باندھتے وقت ہاتھوں کو اٹھاتے تھے چنانچہ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا میں تمہیں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟انہونے پڑھائی تو صرف پہلی مرتبہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا ،علامہ ابن حزم نے الحلی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،اس کے علاوہ امام احمد بن حنبل ،دار قطنی ،ابن قطان ، ابن تیمیہ اور امام نسائی کے نزدیک بھی اس حدیث کی صحت مسلم ہے ۔

    عن علقمة، قال: قال عبد اللہ بن مسعود: ألا أصلی بکم صلاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فصلی، فلم یرفع یدیہ إلا فی أول مرة .(سنن الترمذی ت شاکر 2/ 40)

    جہاں تک آپ کے اس سوال کا تعلق ہے کہ کسی بھی مسئلے پر جواز اور عدم جواز کا حکم لگانے کا حق صرف شریعت کو ہے نہ کہ کسی امام کواس کا جواب یہ ہے کہ احکام شرع دو طرح کے ہیں بعض احکام وہ ہیں جو قرآن وحدیث میں منصوص ہیں اور بعض وہ ہیں جو منصوص نہیں ہیں ،جو احکام منصوص اور واضح الدلالة ہیں ان میں تو ائمہ مجتہدین کا کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی ایسے مسائل میں کسی امام کی تقلید کی جاتی؛ البتہ جو احکام غیر منصوص ہیں ان میں ہی ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے اور ہر ایک مجتہد نے اپنے اپنے اجتہاد کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے احکام غیر منصوصہ کو منصوصہ پر قیاس کیا ہے اور قیاس کرنے کے بعد ہی کسی بھی مسئلے پرقیاس کے قواعدکی روشنی میں جواز اور عدم جواز کا حکم لگایا ہے اور یہ حکم لگانا در حقیقت من جانب شرع ہی ہے نہ کہ من جانب مجتہد، مجتہد تو صرف اس کا اظہار کرتا ہے۔

    چنانچہ خود مجتہد کا اعلان ہے کہ" القیاس مظہر لا مثبت"(شرح عقائد نسفی) کہ ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتلاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب وسنت واجماع امت سے ہی ظاہر کرکے بیان کرتے ہیں ،نیز مجتہد کا یہ بھی اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک میں تلاش کرتے ہیں اگر وہاں نہ ملے تو سنت سے ، اگر وہاں بھی نہ ملے تو اجماع صحابہ سے اور اگر وہ مسئلہ صحابہ کے ما بین مختلف فیہ ہو تو جس طرف خلفائے راشدین کا رجحان ہو تو ہم اس شق کو اختیار کر لیتے ہیں اور اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہاد کی جو شرطیں ہیں ان کی روشنی میں مسئلے کا حکم تلاش کرتے ہیں ،اب ظاہر ہے کہ یہ بات ہر کس وناکس کی سمجھ سے بالا تر ہے ؛اس لئے ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک کی کلی طور پر تقلید کرنے کو ضروری قرار دیا ہے تاکہ دین کے اندر لوگ من مانی کرکے فساد پیدا نہ کریں اور کسی ایک امام کے مکمل طور پر پاپند ہوکر آسانی سے احکام شرع پر عمل کر سکیں ۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہؤلاء المطلقون لا یفکرون فی فساد النکاح بفسق الولی إلا عند الطلاق الثلاث، لا عند الاستمتاع والتوارث، یکونون فی وقت یقلدون من یفسدہ، وفی وقت یقلدون من یصححہ؛ بحسب الغرض والہوی، ومثل ہذا لا یجوز باتفاق الأمة. (الفتاوی الکبری لابن تیمیة 3/ 204) یعنی یہ لوگ کبھی اس امام کی تقلید کرتے ہیں جو نکاح کو فاسد قرار دیتا ہے اور کبھی اس امام کی جو اسے درست قرار دیتا ہے اپنی غرض اور خواہش کے مطابق اور اس طرح عمل کرنا بالاتفاق ناجائز ہے ۔

    واضح رہے کہ تقلید کا حکم دورِ صحابہ اوردورِ تابعین میں بھی رہا ہے کہ مختلف فیہ یا مجتہد فیہ مسائل میں ہر شخص اپنے اعتبار سے جس پر اعتماد کرتا تھا اس کی تقلید کرتا تھا اور جن مسائل میں کوئی منصوص حکم نہ ہو ان میں کتاب وسنت اور اجماع میں غور کرکے ان میں مذکور علت کی روشنی میں حکم مستنبط کرنا خود احادیث سے ثابت ہے ، مشہور حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے جب حضرت معاذ  کو یمن کی طرف بھینجے کا ارادہ کیا تو ان سے کہا: تمھارے پاس مسئلہ آئے تو کیسے فیصلہ کروگے؟ تو حضرت معاذ  نے جواب دیا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ، آپ ﷺ نے پوچھا اگر کتاب اللہ میں یہ مسئلہ نہ مل سکے تو؟ تو انھوں نے جواب دیا سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ، پھر آپﷺ نے پوچھا اگر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ دونوں میں مسئلہ کا حل نہ مل سکے تو؟ تو حضرت معاذ نے جواب دیا پھر اجتہاد واستنباط کرکے اور حکم تلاش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑوں گا ، آپ ﷺ اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور پھر کہا تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ اور اس کے رسول راضی ہیں۔

    اسی طرح ایک دوسری حدیث میں، اگر حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور فیصلہ میں درستگی کو پہونچ جائے تو اس کے لیے دو اجر ہے اور اگر فیصلہ میں غلطی کرجائے تو بھی ایک اجر ہے ؛ اس لیے حضراتِ ائمہ کا اجتہاد کرکے مسائل کا استنباط کرنا خود حضور ﷺ کی حدیث کی وجہ سے ہے اور یہ ممکن ہے کہ ایک مسئلہ میں دوناحیے سے غور کرنے کی وجہ سے حکم میں تبدیلی آجائے مگر اس کی وجہ سے یہ کہنا کہ مسئلہ ائمہ کے بدلنے سے بدلا صحیح نہیں ۔

    المغیرة بن شعبة، عن أناس من أہل حمص، من أصحاب معاذ بن جبل، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما أراد أن یبعث معاذا إلی الیمن قال: ”کیف تقضی إذا عرض لک قضاء؟“ ، قال: أقضی بکتاب اللہ، قال: ”فإن لم تجد فی کتاب اللہ؟“، قال: فبسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: ”فإن لم تجد فی سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ولا فی کتاب اللہ؟“ قال: أجتہد رأیی، ولا آلو فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدرہ، وقال: ”الحمد للہ الذی وفق رسول، رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ“ (سنن أبی داود رقم: 3592، باب اجتہاد الرأی فی القضاء) عن عمرو بن العاص، أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ”إذا حکم الحاکم فاجتہد ثم أصاب فلہ أجران، وإذا حکم فاجتہد ثم أخطأ فلہ أجر“ (صحیح البخاری ، رقم: 7352، باب أجر الحاکم إذا اجتہد فأصاب أو أخطأ)

    نوٹ: تقلید کے موضوع پر مطالعہ کرنے کے لیے آپ تقلید کی شرعی حیثیت مفتی تقی عثمانی صاحب، الکلام المفید فی اثبات التقلید ، سرفراز خان صفدر صاحب اور فتاوی رحیمیہ جلد اول کا مطالعہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند