عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک
سوال نمبر: 146525
جواب نمبر: 146525
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 186-277/Sn=4/1438
حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے ”قادیان“ میں ”قادیانیت“ کے خلاف ایک جلسے کے موقع پر یہ بات فرمائی، حضرت نے جس موقع پر اور جس سیاق میں یہ بات کہی اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت کا مقصود اپنے کلام سے یہ تھا کہ ہم نے فروعی اختلافات میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے میں صرف کردی جب کہ ”اصولِ اسلام“ کی حفاظت اور غیروں کی طرف سے اس پر ہونے والے حملوں کے مقابلے میں کوئی خاطر خواہ محنت ہم نے نہیں کی جب کہ یہ زیادہ اہم ہے؛ کیوں کہ ان حملوں کی وجہ سے آدمی ”ایمان“ ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بہ حیثیت ورثة الانبیاء ہم (علماء) کی ذمے داری بنتی ہے کہ اصولِ اسلام پر ہونے والے حملوں کے دفاع کو سب سے زیادہ ترجیح دیں؛ تاکہ لوگوں کا ایمان بچ جائے، رہے فروعی اختلافات تو ان کی وجہ سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا؛ بلکہ اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ چاروں فقہی مسالک حق ہیں، کسی کو ”مُنکر“ نہیں کہا جاسکتا؛ اسی لیے احناف کی رائے کو (مثلاً) ترجیح دینے کے باوجود ہمیں یہ کہنا اور ماننا پڑتا ہے کہ ”ہذا صواب یحتمل الخطأ“ یعنی یہ درست ہے؛ لیکن خطا کے احتمال کے ساتھ۔ بہرحال حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ کا مقصد ”حنفیت“ سے بدظنی یا اس کی ترجیح کو لغو کام ظاہر کرنا نہ تھا؛ بلکہ اصولِ اسلام کے دفاع کو اس پر ترجیح دینا تھا، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ جو اس واقعے کے راوی ہیں انھوں نے اس سے جو سمجھا (اور صحیح سمجھا) وہ یہی ہے، چناں چہ ”وحدت امت“ نامی رسالہ (جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے) میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے جو تشریح کی ہے اس کا حاصل وہی ہے جو اوپر تحریر کیا گیا، آپ اول تا آخر پورا رسالہ پڑھ ڈالیے، ان شاء اللہ شاہ صاحب رحمہ اللہ کے کلام پر جو اعتراض کیا جاتا ہے یا اس کا جو مطلب غیر مقلدین کشید کرتے ہیں، اس کی بالکلیہ نفی ہوجاتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند