• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 12585

    عنوان:

    اہل حدیث میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کا کیا پتہ جن کی تقلید کی جارہی ہے کہ وہ کس درجہ کے تھے۔ کوئی بھی دعوی تو نہیں کرسکتا کہ وہ بہت اچھے درجہ پر ہوں گے، ہوسکتا ہے کہ آج بہت سے انسان اللہ کے نزدیک ان سے بہت بہتر ہوں اورجنت میں ان سے اوپر ہوں۔ کیا واقعی آج کے دور میں بھی کوئی شخص امام ابوحنیفہ اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں سے درجہ کے لحاظ سے اوپر جاسکتا ہے؟

    سوال:

    اہل حدیث میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کا کیا پتہ جن کی تقلید کی جارہی ہے کہ وہ کس درجہ کے تھے۔ کوئی بھی دعوی تو نہیں کرسکتا کہ وہ بہت اچھے درجہ پر ہوں گے، ہوسکتا ہے کہ آج بہت سے انسان اللہ کے نزدیک ان سے بہت بہتر ہوں اورجنت میں ان سے اوپر ہوں۔ کیا واقعی آج کے دور میں بھی کوئی شخص امام ابوحنیفہ اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں سے درجہ کے لحاظ سے اوپر جاسکتا ہے؟

    جواب نمبر: 12585

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1047=805/ھ

     

    جب ان بیچارے لوگوں کو تقلید اختیار نہیں کرنی ہے تو کون کس درجہ میں ہے؟ اس فکر میں اپنے آپ کو گھلانا بھی عبث اور فضول ہے اور فضول کام میں لگ کر عمر عزیز کو برباد کرنا حدیث شریف کے خلاف ہے، باقی آپ کے سمجھنے کی خاطر عرض ہے کہ کچھ امور ایسے ہیں کہ جن پر دعوی کی حاجت نہیں ہوتی، حضرت امام بخاری، امام مسلم ودیکر کبار محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ رحمة واسعة نے کبھی دعوی نہیں کیا تھا کہ ہماری تصانیف اصح الکتب بعد کتاب اللہ ہے یا ہم عند اللہ اتنے اتنے اونچے درجات پر فائز ہیں، اے مسلمانو! ہمارے درجات کو ملحوظ رکھ کر ہماری تصانیف کو ترجیح دو، ہرگز ہرگز اس قسم کے دعاوی نہ کیے نہ امت نے کبھی ان دعووں کی ضرورت محسوس کی بلکہ آج بھی امت کے سواد اعظم کے قلوب میں ان محدثین کرام کہ جو کچھ عظمت وجلالت شان ہے وہ صرف اور صرف موہوب من اللہ ہے، اسی طرح حضرات مجتہدین بالخصوص امام اعظم ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ کا معاملہ ہے، نیز آپ کی فہم کی خاطر یہ بھی عرض ہے کہ تقلید کا مبنی اصالةً جرجہ نہیں ہے، حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا درجہٴ علیا جو کچھ امت کے نزدیک ہے وہ ظاہر ہے مگر حضرات اہل مدینہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تقلید شخصی فرماتے تھے اس لیے صاف فرمادیا لا نأخذ بقولک وندع قول زید اھ (بخاري شریف: ۱/۲۳۷، کتاب الحج) یعنی ہم (حضرات اہل مدینہ) آپ (حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما) کے قول کی وجہ سے زید ابن ثابت رضی اللہ عنہما کے قول اور فتویٰ کو ترک نہیں کریں گے۔ تفصیل بخاری شریف میں ہے، ہم نے مختصراً تحریر کردیا۔ کاش کچھ لوگ جو کچھ آپ سے کہتے ہیں وہ بھی انصاف کے ساتھ اس پر غور کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند