• عقائد و ایمانیات >> تقلید ائمہ ومسالک

    سوال نمبر: 1240

    عنوان:

    کیا کسی ایک امام کی تقلید ضروری ہے؟

    سوال:

    (۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا کسی بھی امام کی تقلید ضروری ہے؟

    (۲) کیا بنا تقلید ایمان ادھورا ہے؟

    (۳) جب یہ چاروں امام نہیں تھے تو اس وقت کے مسلمان کس امام کی تقلید کیا کرتے تھے؟

    (۴) اللہ کے رسول کی پیشین گوئی جب بہتر فرقے کے لیے ہے تو اماموں کے بارے میں بھی اللہ کے رسول نے کچھ اپنی زبان سے کہا ہوگا۔

    جواب نمبر: 1240

    بسم الله الرحمن الرحيم

    (فتوى:  568/ن = 557/ن)

     

    (۱) جی ہاں! چاروں برحق ائمہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے اس لیے کہ عوام او رکم پڑھے لکھے لوگ تو بغیر تقلید کے قرآن وحدیث میں سے ہرایک میں تنِ تنہا راہِ مستقیم پر نہیں رہ سکتے ہیں اور جب قرآن و احادیث سے ماخوذ قواعد و ضوابط کی روشنی میں تمام اجتہادی مسائل متفرع کرلیے گئے تو اب اہل علم کو اجتہاد کی گنجائش دیکر امت میں اختلاف و انتشار پیدا کرنا ہے جیسا کہ تیسری و چوتھی صدی میں بہت سے لوگوں نے اجتہاد کیا جس کی وجہ سے امت میں مقلدین کے بہت سے گروہ پیدا ہوگئے اور امت میں بہت زیادہ افتراق پیدا ہوگیا تو چوتھی صدی میں چاروں ائمہ کی تقلید پر اجماعِ امت ہوگیا کہ ان کے علاوہ کی تقلید درست نہیں ہے۔ فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاہب ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذاہب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکّب علی بطلان قول من یخالف کلھم (تفسیر مظھري: ج۲ ص۶۴)

    (۲) ایمان نام ہے التصدیق بجمیع ما جاء بہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم کا تقلید کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر بغیر تقلید کے شریعت پر عمل دشوار ہے اور ایسا شخص خطرہ میں رہتا ہے چنانچہ غیرمقلدین کے پیشوا مولانا محمد حسین بٹالوی اشاعت السنة جلد ۱۱ شمارہ ۱۰ کے ص ۲۱۱ میں تحریر فرماتے ہیں: غیر مجتہد مطلق کے لیے مجتہدین سے فرار و انکار کی گنجائش نہیں اور جلد ۱۱ شمارہ ۱۱ کے ص۵۳ میں وضاحت فرماتے ہیں: ?پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ بالآخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں ان میں سے بعض عیسائی ہوجاتے ہیں اور بعض لامذہب جو کسی دین و مذہب کے پابند نہیں رہتے?۔

    (۳) اس وقت بھی لوگ معتبر علمائے دین اور ہرعلاقہ والے اپنے یہاں کے مجتہدین کی تقلید کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں وبعد المأتین ظھرت فیھم التمذھب للمجتھدین بأعیانھم وقل ما کان لا یعتمد علی مذھب مجتھد بعینہ وکان ھذا ھو الواجب في ذلک الزمان (الأنصاف مع ترجمہ کشاف: ص۵۹) اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب -رحمہ اللہ- عقد الجید میں فرماتے ہیں کہ لوگ صحابہ-رضي اللہ عنہم-کے زمانے سے تقلید کرتے آرہے ہیں لأن الناس لم یزالوا من زمن الصحابة -رضي اللہ عنھم- إلی أن ظھرت المذاھب الأربعة یقلدون من اتفق من العلماء من غیر نکیر من أحد یعتبر إنکارہ ولو کان ذلک باطلاً لأنکرہ (عقد الجید مع سلک مروارید: ۲۹)

    (۴) ان ائمہ کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشین گوئی نہیں ہے کیونکہ ان کے مسالک کوئی علیحدہ علیحدہ فرقے نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں اہل سنت والجماعت کے مسالک ہیں اور اہل سنت والجماعت سوادِ اعظم اور ناجی فرقہ ہے جیسا کہ اس پر بے شمار احادیث مشاہد ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند