• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 9789

    عنوان:

    میری بیوی اور میرا جھگڑا ہوا۔ اسی جھگڑے کے دوران میری بیوی نے مجھے کافی برابھلا کہا، اس کے اس طرح زبان دراز ی پر مجھے انتہائی غصہ آیا اورمیں نے اس کو کہہ دیا کہ آئندہ اگر تم نے مجھے گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہوجائے گی۔ اورساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اب یہ بات تمہارے اختیار میں ہے۔ اب میری بیوی بہت زیادہ فکر مند ہے کیوں کہ میں نے طلاق کا لفظ ایک شرط کے ساتھ ذکر کیا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ برہم ہے اور وہ بہت زیادہ خوف زدہ بھی ہے۔ اب وہ مجھ سے بات نہ کرے گی اور نہ میرے پاس آئے گی۔ کیا طلاق اس طرح ہوسکتی ہے کہ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ تم نے اگرمجھے آئندہ کبھی گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ اب وہ خوف زدہ ہے حتی کہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی اور وہ سوچتی ہے کہ چونکہ میں نے لفظ گالیاں استعمال کی ہیں تو یہ ہر اس چیزپر صادق آئے گی جو کہ وہ غصہ سے مجھے کہے گی ۔ اور اس کے بعد میں نے اس کو یہ واضح کیا کہ جو کچھ میں نے کہا تو واضح الفاظ یہ تھے ?اگر تم نے مجھے آئندہ کبھی گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ میں اسے صرف سمجھا رہا تھا کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دیں ہیں۔ میں نے اب یہ طلاق کا معاملہ تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ ....

    سوال:

    میری بیوی اور میرا جھگڑا ہوا۔ اسی جھگڑے کے دوران میری بیوی نے مجھے کافی برابھلا کہا، اس کے اس طرح زبان دراز ی پر مجھے انتہائی غصہ آیا اورمیں نے اس کو کہہ دیا کہ آئندہ اگر تم نے مجھے گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہوجائے گی۔ اورساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اب یہ بات تمہارے اختیار میں ہے۔ اب میری بیوی بہت زیادہ فکر مند ہے کیوں کہ میں نے طلاق کا لفظ ایک شرط کے ساتھ ذکر کیا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ برہم ہے اور وہ بہت زیادہ خوف زدہ بھی ہے۔ اب وہ مجھ سے بات نہ کرے گی اور نہ میرے پاس آئے گی۔ کیا طلاق اس طرح ہوسکتی ہے کہ اگر ایک شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ تم نے اگرمجھے آئندہ کبھی گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ اب وہ خوف زدہ ہے حتی کہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی اور وہ سوچتی ہے کہ چونکہ میں نے لفظ گالیاں استعمال کی ہیں تو یہ ہر اس چیزپر صادق آئے گی جو کہ وہ غصہ سے مجھے کہے گی ۔ اور اس کے بعد میں نے اس کو یہ واضح کیا کہ جو کچھ میں نے کہا تو واضح الفاظ یہ تھے ?اگر تم نے مجھے آئندہ کبھی گالیاں دیں تو تمہیں ایک طلاق ہے۔ میں اسے صرف سمجھا رہا تھا کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دیں ہیں۔ میں نے اب یہ طلاق کا معاملہ تمہارے ہاتھ میں دے دیا ہے کہ اگر آئندہ گالیاں دو گی تو تم خود اپنے آپ کی وجہ سے ایک طلاق لے لو گی۔ اب وہ بہت زیادہ فکر مند ہے کیوں کہ میں نے ان الفاظ میں دوبارہ لفظ طلاق کہا ۔ میں صرف اس کو یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ میں نے اس کو طلاق نہیں دی ہے میں نے صرف اس پر ایک شرط رکھی ہے اورمیں طلاق کا یہ حق تم کو دے رہا ہوں اس لیے کہ اگر تم کبھی دوبارہ یہ الفاظ کہو گی مجھے تو تم اپنے آپ کو ایک طلاق دو گی۔ اس کے بعد میری بیوی مکمل طور پر الگ ہوگئی ہے وہ مجھ سے بات نہیں کرتی ہے کیوں کہ وہ سوچتی ہے کہ اگر وہ میرے بارے میں کچھ کہے گی غلطی سے حتی کہ اگر میں وہاں موجود نہیں ہوں توکچھ ہوجائے گا حتی کہ اس پوائنٹ پر بھی کہ اگر وہ سورہی ہو اوروہ نیند میں کچھ کہے اوراس وقت جب کہ وہ ذہنی طور پر حاضر نہیں ہے اور میرے بارے میں کچھ کہتی ہے حتی بغیر اس کے بارے میں سوچے ہوئے ۔کیا اس بارے میں اگر وہ میرے بارے میں کسی اور سے کچھ کہتی ہے جب کہ میں وہاں نہیں ہوں تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے، اوراس کے بارے میں کیا ہے؟ اس لمبی کہانی کومختصر بنانے کے لیے مجھے مقامی امام صاحب سے بات کرنی پڑی اس کے اطمینان کے لیے اوران کے مطابق شوہر طلاق پر اس طرح کی شرط نہیں رکھ سکتا ہے۔ چونکہ وہ امام صاحب حنبلی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اورہم حنفی ہیں اس لیے میری بیوی ان کے جواب پر مطمئن نہیں ہے۔ آپ بتائیں کہ کیا ہماری شادی برقرار ہے حنفی مذہب کے مطابق؟ اگر یہ طلاق نہیں واقع ہوئی ہے جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ واقع نہیں ہوئی ہے وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں یہ شرط واپس لے لوں اور وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ ایک طلاق حق حاصل کرے اپنے لیے ،ہم یہ کیسے کرسکتے ہیں؟ اس کے سوالات ایسے بھی ہیں (۱)کیا مسئلہ ہے اگر شوہر اس طرح کی شرط رکھتا ہے کہ اگر تم اپنے والد سے بات کرو گی توتمہیں طلاق ہوجائے گی۔ اس صورت میں کیا ہے اگر وہ کہے اگر تم اپنی ماں کے چہر ہ کو دیکھو گی توتمہیں طلاق ،اگر شوہر اس کوگالی دیتا رہتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اگر تم باہر جاؤ گی اورکسی سے کہو گی تو تمہیں طلاق اسی طرح مزید۔ (۲)کچھ الفاظ زبان پر ہوتے ہیں کیوں کہ ہم ان کو بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں بچوں کے لیے جب وہ شرارت کرتے ہیں اورکبھی یہ الفاظ منھ سے باہر آتے ہیں بغیر قصد کے ۔کیا ا گر اس طرح کی کوئی چیز پیش آئے جب کہ وہ مجھ سے بات کررہی ہے اوروہ وہ الفاظ کہتی ہے بلا قصد کے کیوں کہ اس کو ان الفاظ کے کہنے کی عادت ہے بچوں کو جب وہ شرارت کرتے ہیں۔ (۳)جب میں نے ایک طلاق کی شرط رکھی تب ہم لڑائی کررہے تھے تواس نے کہاکہ کیا اس نے اس وقت کے دوران کوئی بات کہی ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے کوئی ایسا لفظ نہیں سنا ہے جس کو گالی سمجھا جاتا ہے اس نقطہ سے آگے تک ۔ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ کیا مجھے اس پر گواہ پیش کرنے ہوں گے اس کوگالیاں دیتے ہوئے مجھ کو یا مجھے اس کوگالیاں کہتے ہوئے گواہ رکھنے ہوں گے مجھ کو؟ آپ کا تفصیلی جواب اس معاملہ میں بہت اچھا رہے گا۔

    جواب نمبر: 9789

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 64=91/ ھ

     

    (۱) آپ نے بسلسلہ طلاق اگر صرف یہی الفاظ کہے تھے کہ: اگر تم نے مجھے آئندہ کبھی گالیاں دیں تو تمھیں ایک طلاق ہے تو ان الفاظ کا حکم یہ ہے کہ جب گالیاں دے گی تو بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور ایک طلاق رجعی میں عدت گذرنے سے قبل شوہر کو رجعت کا حق ہوتا ہے اور عدت گذرجانے پر رجعت کا حق ختم ہوجاتا ہے، البتہ بتراضیٴ طرفین بغیر حلالہ نکاح جدید ہوسکتا ہے۔

    (۲) جب طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کردی جائے تو اس طلاق یا شرط کو ختم کردینے کا اختیار شوہر کو نہیں رہتا۔

    (۳) مذکورہ بالا الفاظ طلاق سے ایک طلاق رجعی کا حکم تب لاگو ہوگا کہ اس سے قبل یا بعد آپ نے کبھی کوئی طلاق کسی قسم کی نہ دی ہو اگر دی ہو تو حکم بدل جائے گا اس کو صاف وواضح انداز میں لکھ کر دوبارہ معلوم کریں۔

    (۴) ایک مرتبہ دوران لڑائی آپ نے ایک طلاق کو گالیاں دینے کی شرط کے ساتھ معلق کیا یہ اِنشاءِ طلاق ہے اگر اسی طرح دوسری مرتبہ بھی ایک اور طلاق کو معلق کردیا تو وہ دوسری ہوگئی لیکن اگر دوسری مرتبہ پہلی معلق طلاق کو حکایةً ذکر کیا ہو تو دوسری طلاق نہ ہوگی بلکہ پہلی ایک ہی معلق طلاق متحقق ہوگی۔

    (۵) اگر آپ مثلاً کبھی دعوی کریں کہ تم (بیوی) نے گالیاں دیں لہٰذا ایک طلاق جو معلق تھی وہ واقع ہوگئی اور بیوی انکار کرے تو آپکے گواہان کی شہادتِ شرعیہ ہوگی اگر آپ پیش نہ کرسکے تو بیوی کا قول قسم کے ساتھ معتبر مان کر فیصلہ ہوگا۔

    (۶) محض غصہ ہونے سے طلاق واقع نہ ہوگی، گالی سے مراد بحالت غصہ ونزاع زبان سے ناشائستہ ایسے کلمات ہوتے ہیں کہ جن کا بحالت بیداری بولنا شرعاً وعقلاً وعرفاً برا سمجھا جاتا ہو اور ان سے شوہر کی ہتک عزت ہوتی ہو، اگر ابھی تک ایسے قبیح کلمات بیوی نے نہیں بولے تو طلاق بھی واقع نہ ہوئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند