• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 9698

    عنوان:

    جواب نمبر3758کے تعلق سے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لفظ: میں اسے چھوڑ دیا, ایک رجعی طلاق کی طرف لے جاسکتی ہے؟ سب سے پہلے اس شخص کی نیت پوچھنی چاہیے؟ دوسرے یہ کہ الفاظ مبہم ہیں اور اردو میں ایک واضح طلاق کی جانب نہیں رہنمائی کرتے ہیں (میں نے اس کو جانے دیا)۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے مراد لیا ہو کہ اس نے اس کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا یا اس کو گھر چھوڑنے دیا۔ یا صرف اس سے بیزار ہوگیا۔ یہ طلاق عرف میں کیسے صریح ہے؟ اگر اس سے طلاق واقع ہوتی ہے تو یہ طلاق بائن ہوگی کیوں کہ الفاظ مبہم ہیں۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ جماع کے بعد واقع ہوا ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے جواب کا اندازہ لگائیں گے کیوں کہ یہ بہت ہی سیریس ہے۔ (۲)آپ نے یہ بیان کیا ہے کہ پیپر پر دی ہوئی طلاق جب بیوی اسی مجلس میں موجود ہے بے اثر ہے (جواب نمبر2699) ۔ ہم فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ کہاں معلوم کرسکتے ہیں؟ میں نے دارالعلوم کراچی کے مفتیان کرام سے رابطہ کیا اور انھوں نے بیان کیا کہ واقع ہوجائے گی چاہیے بیوی موجودہے یا نہیں حتی کہ اگر چہ اس شخص نے الفاظ ادا نہیں کئے ہیں۔

    سوال:

    جواب نمبر3758کے تعلق سے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لفظ: میں اسے چھوڑ دیا, ایک رجعی طلاق کی طرف لے جاسکتی ہے؟ سب سے پہلے اس شخص کی نیت پوچھنی چاہیے؟ دوسرے یہ کہ الفاظ مبہم ہیں اور اردو میں ایک واضح طلاق کی جانب نہیں رہنمائی کرتے ہیں (میں نے اس کو جانے دیا)۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے مراد لیا ہو کہ اس نے اس کو اس کی مرضی پر چھوڑ دیا یا اس کو گھر چھوڑنے دیا۔ یا صرف اس سے بیزار ہوگیا۔ یہ طلاق عرف میں کیسے صریح ہے؟ اگر اس سے طلاق واقع ہوتی ہے تو یہ طلاق بائن ہوگی کیوں کہ الفاظ مبہم ہیں۔ یہ یقین کرتے ہوئے کہ یہ جماع کے بعد واقع ہوا ۔ مجھے امید ہے کہ آپ اپنے جواب کا اندازہ لگائیں گے کیوں کہ یہ بہت ہی سیریس ہے۔

    (۲)آپ نے یہ بیان کیا ہے کہ پیپر پر دی ہوئی طلاق جب بیوی اسی مجلس میں موجود ہے بے اثر ہے (جواب نمبر2699) ۔ ہم فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ کہاں معلوم کرسکتے ہیں؟ میں نے دارالعلوم کراچی کے مفتیان کرام سے رابطہ کیا اور انھوں نے بیان کیا کہ واقع ہوجائے گی چاہیے بیوی موجودہے یا نہیں حتی کہ اگر چہ اس شخص نے الفاظ ادا نہیں کئے ہیں۔

    جواب نمبر: 9698

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 46=45/ ب

     

    چھوڑدیا، کا لفظ سَرَّحْتُ، کا ترجمہ ہے، اور سَرَّحْتُ کو فقہاء نے صریح الفاظ میں شمار کیا ہے۔ جب اس کا عرف عام ہوجائے طلاق کے معنیٰ میں، تو اس سے صریح طلاق واقع ہوگی۔ عرف عام کے سامنے آپ کی منطقیانہ شقیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔

    (۲) کتابت تو تلفظ کا قائم مقام ہے، اصل تو تلفظ ہی ہے۔ مخاطب سامنے ہو تو تلفظ کیا جاتا ہے، اس کو لکھا نہیں جاتا ہے نہ اس کی حاجت ہے، اس لیے بیوی سامنے ہو اور زبانی نہ دے کر تحریر اس کے سامنے لکھے، معتبر نہیں، نہ اس کی حاجت ہے، اس لیے وہ طلاق واقع نہ ہوگی۔ کراچی والا فتویٰ مع سوال وجواب ارسال فرمائیں اس کے بعد جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند