• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 7926

    عنوان:

     نو ماہ پہلے میں نے اپنے والدین کی رضامندی سے محبت کی شادی کی۔ میں اور میری بیوی ایک دوسرے کوبہت زیادہ چاہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ میں اس کے اوپر بہت زیادہ ناراض ہوجاتا ہوں جب وہ میری فرماں برداری نہیں کرتی ہے اور ہمارے گھر کے اصوال کے مطابق نہیں چلتی ہے جواصول میری بھابھی اوربہنوں پر برابر عائد ہوتے ہیں۔ اب زیادہ تر کسی نہ کسی بات پر میرے والدین اور میری بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جب سے میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جرمنی آیا ہوں لڑائی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی دونوں یعنی میری بیوی اور والدین صحیح ہوتے ہیں لیکن کبھی دنوں غلطی پر ہوتے ہیں۔ میری بیوی عموماً اپنی بڑی بہن کے گھرجاتی ہے جو کہ قریب ہی میں رہتی ہے، اورآج دوبارہ اپنی بڑی بہن کے گھر سے اپنے بھانجے کے ساتھ موٹر سائیکل پر دیر رات میں آنے کے بعداس بات کوجانتے ہوئے کہ اس کا بڑا بھانجہ (بڑی بہن کا لڑکا) اور میرے والدین ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ہیں اس کے ناقابل بھروسہ کردار کی وجہ سے، میری بیوی کے اس عمل کی وجہ سے میرے والدین اور میں اس کے اوپر ناراض تھے اور میں نے اس کو فون کیا اوراس کو بہت زیادہ گالی دی اور کہا ?میں تم کو طلاق دیتا ہوں?۔ جواب میں اس نے مجھے اورمیرے والدین کو بہت زیادہ گالی دی ٹھیک اسی طرح اور بار بار طلاق کے لیے کہا۔ میں اس وقت خاموش ہوگیا لیکن وہ طلاق کے لیے اصرار کررہی تھی جس کومیں برداشت نہیں کرسکا اورایک مرتبہ کہا ?میں تجھے طلاق دیتا ہوں?۔ اب وہ میری کیا ہے؟ اگر وہ میرے ذریعہ مطلقہ ہوگئی ہے تو پھر ہم دوبارہ اپنی شادی کیسے برقرار کرسکتے ہیں؟ دوبارہ شادی شدہ بننے کے لیے کیا مجھے دوبارہ پاکستان جانا ہوگا اوراس کی رضامندی سے اس کے ساتھ شادی کا رشتہ کرنا پڑے گا یا ٹیلی فون پر صرف اس سے کہہ دینا ہوگا کہ ?میں تم سے رجوع کرتا ہوں? یا مجھے دوسرا نکاح کرنا ہوگا؟برائے کرم مجھے جلد ازجلد بتادیں کیوں کہ اگراس کے ساتھ شادی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے خاص وقت گزرنے سے پہلے آپ مجھے پاکستان واپس جانے کا مشورہ دیں تو میرے پاس کافی وقت رہے۔ نیز میں بہت زیادہ پریشان ہوں جس کے لیے آپ کا جواب درکار ہے۔

    سوال:

     نو ماہ پہلے میں نے اپنے والدین کی رضامندی سے محبت کی شادی کی۔ میں اور میری بیوی ایک دوسرے کوبہت زیادہ چاہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ میں اس کے اوپر بہت زیادہ ناراض ہوجاتا ہوں جب وہ میری فرماں برداری نہیں کرتی ہے اور ہمارے گھر کے اصوال کے مطابق نہیں چلتی ہے جواصول میری بھابھی اوربہنوں پر برابر عائد ہوتے ہیں۔ اب زیادہ تر کسی نہ کسی بات پر میرے والدین اور میری بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جب سے میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے جرمنی آیا ہوں لڑائی کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی دونوں یعنی میری بیوی اور والدین صحیح ہوتے ہیں لیکن کبھی دنوں غلطی پر ہوتے ہیں۔ میری بیوی عموماً اپنی بڑی بہن کے گھرجاتی ہے جو کہ قریب ہی میں رہتی ہے، اورآج دوبارہ اپنی بڑی بہن کے گھر سے اپنے بھانجے کے ساتھ موٹر سائیکل پر دیر رات میں آنے کے بعداس بات کوجانتے ہوئے کہ اس کا بڑا بھانجہ (بڑی بہن کا لڑکا) اور میرے والدین ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ہیں اس کے ناقابل بھروسہ کردار کی وجہ سے، میری بیوی کے اس عمل کی وجہ سے میرے والدین اور میں اس کے اوپر ناراض تھے اور میں نے اس کو فون کیا اوراس کو بہت زیادہ گالی دی اور کہا ?میں تم کو طلاق دیتا ہوں?۔ جواب میں اس نے مجھے اورمیرے والدین کو بہت زیادہ گالی دی ٹھیک اسی طرح اور بار بار طلاق کے لیے کہا۔ میں اس وقت خاموش ہوگیا لیکن وہ طلاق کے لیے اصرار کررہی تھی جس کومیں برداشت نہیں کرسکا اورایک مرتبہ کہا ?میں تجھے طلاق دیتا ہوں?۔ اب وہ میری کیا ہے؟ اگر وہ میرے ذریعہ مطلقہ ہوگئی ہے تو پھر ہم دوبارہ اپنی شادی کیسے برقرار کرسکتے ہیں؟ دوبارہ شادی شدہ بننے کے لیے کیا مجھے دوبارہ پاکستان جانا ہوگا اوراس کی رضامندی سے اس کے ساتھ شادی کا رشتہ کرنا پڑے گا یا ٹیلی فون پر صرف اس سے کہہ دینا ہوگا کہ ?میں تم سے رجوع کرتا ہوں? یا مجھے دوسرا نکاح کرنا ہوگا؟برائے کرم مجھے جلد ازجلد بتادیں کیوں کہ اگراس کے ساتھ شادی کا رشتہ قائم کرنے کے لیے خاص وقت گزرنے سے پہلے آپ مجھے پاکستان واپس جانے کا مشورہ دیں تو میرے پاس کافی وقت رہے۔ نیز میں بہت زیادہ پریشان ہوں جس کے لیے آپ کا جواب درکار ہے۔

    جواب نمبر: 7926

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1767/د= 106/ک

     

    اگر آپ نے صرف دو مرتبہ تجھے طلاق دیتا ہوں کے الفاظ کہے ہیں اس سے زاید نہیں کہا ہے تو دو مرتبہ کہنے سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی جس میں عدت کے اندر اندر آپ کو رجوع کرنے کاحق حاصل ہے یعنی زبان سے کہہ دیں (خواہ ٹیلیفون سے) کہ میں نے رجوع کیا تو رجوع درست ہوجائے گا۔ اور اگر عدت کے ایام پورے ہوگئے۔ (یعنی طلاق کے وقت سے تین ماہواری آگئی) تو تجدید نکاح روبرو گواہان بتراضی طرفین مہر جدید پر کرنا ضروری ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند