• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 69319

    عنوان: میں نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق کہہ دیا وہ بھی ایک ہی بار میں اورایک ہی وقت میں سب کے سامنے اور اس وقت میں بھی ناپاک تھا ، تو کیا طلاق ہوگئی؟

    سوال: میں نے اپنی بیوی کو تین بار طلاق کہہ دیا وہ بھی ایک ہی بار میں اورایک ہی وقت میں سب کے سامنے اور اس وقت میں بھی ناپاک تھا اور میری بیوی بھی۔ تو کیا میرا طلاق ہوکیا ہے؟ براہ کرم مجھے بتائیں کہ ایسے میں طلاق ہوسکتا ہے؟ ویسے میں طلاق نہیں دینا چاہتا ہوں اور میں تو ابھی بھی اپنی بیوی کو گھر لانا چاہتا ہوں۔ مگر بیوی کے گھر والے بھیج نہیں رہے ہیں کہتے ہیں کہ تم نے میری بیٹی کو طلاق دے دیا ہے تو ہم کیوں بھیجیں۔ براہ کرم میری مدد کیجیے کوئی فتوی جاری کیجیے کہ جو میں اس کے گھر والوں کو دکھاسکوں کہ میرا طلاق نہیں ہوا ہے۔

    جواب نمبر: 69319

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1206-1106/N=10/1437 (۱، ۲) : جمہور صحابہ ، تابعین اورتبع تابعین وغیرہم اور ائمہ اربعہاور ان کے متبعین سب اس پرمتفق ہیں کہ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ صرف ایک واقع ہو اور یہی مذہب حق اور صحیح ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں جب آپ نے اپنی بیوی کو صاف اور واضح الفاظ میں متعدد لوگوں کی موجودگی میں تین بار طلاق کہہ دیا تو بلا شبہ آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ آپ پر حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں وہ دوبارہ آپ کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ اور رہی یہ بات کہ آپ اور آپ کی بیوی دونوں اس وقت ناپاک تھے تو اس سے طلاق پر کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیوں کہ میاں بیوی دونوں جنبی ہوں تب بھی میاں کے طلاق دینے سے بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہے ، قال اللّٰہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰) ، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند) ، وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان، باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲: ۵۱۴ ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع) ، وقال في بدائع الصنائع (کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ط: مکتبة زکریادیوبند) : وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ﴾، وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔ وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان) : …فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند) : وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة……لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ، وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة (المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷الھجریة، حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹) : المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب: المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس … اھ، وفي ص ۱۴۲ منہ بعنوان: القرار: بعد الاطلاع علی البحث المقدم من الأمانة العامة لھیئة کبار العلماء والمعد من قبل اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء في موضوع ”الطلاق الثلاث بلفظ واحد“ وبعد دراسة المسألة وتداول الرأي واستعراض الأقوال التي قیلت فیھا ومناقشة ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظ واحد ثلاثاً۔ مزید دلائل اور تفصیلات کے لیے عمدة الأثاث في حکم الطلقات الثلاث موٴلفہ: حضرت مولانا سرفراز خان صفدر  دیکھیں۔ (۳) : آپ کی بیوی کے میکے والوں کی بات صحیح ہے؛ کیوں کہ صورت مسئولہ میں بلا شبہ آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اب آپ حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں اسے دوبارہ اپنے نکاح میں نہیں لاسکتے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند