• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 68091

    عنوان: جو نکاح حلالہ کے لیے کیا جائے یعنی جو نکاح یہ سوچ کے کیا جائے کہ اس کی طلاق ہوگی کیا وہ جائز نہیں ہوتا؟

    سوال: مجھے آپ سے رہنمائی چاہیے میری طلاق ہوچکی ہے اور میں اپنے سابقہ شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں مجھے اسی سلسلے میں آپ سے اپنے کچھ سوالات کے جوابات چاہیے: (۱) جو نکاح حلالہ کے لیے کیا جائے یعنی جو نکاح یہ سوچ کے کیا جائے کہ اس کی طلاق ہوگی کیا وہ جائز نہیں ہوتا؟ (۲) اگر یہ صرف میرے دل میں ہو کہ مجھے بعد میں طلاق لینی ہے اور میں جس سے نکاح کروں اسے طلاق کا پتہ نہ ہو تو کیا جب بھی یہ نکاح حلال اور جائز نہیں ہوگا؟ (۳) اگر حلالہ کے لیے کیا جانے والا نکاح اس وجہ سے حلال نہیں ہوتا کہ اس کے لیے پتہ ہوتا ہے کہ اس کی طلاق ہوگی تو پھر حلالہ کس طرح سے ہوگا؟ (۴) جس سے حلالہ کے لیے نکاح ہو جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے تو ہی میں عدت کرکے اپنے سابقہ شوہر کے پاس واپس جاسکتی ہوں تو جب اسے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اسے مجھے طلاق دینی ہے اور یہ نکاح حلالہ کے لیے ہوا ہے تو وہ کیوں مجھے طلاق دے گا وہ بھی اپنی مرضی سے اور جب وہ مجھے طلاق ہی نہیں دے گا تو پھر میں کیسے حلالہ کرکے اپنے سابقہ شوہر کے پاس واپس جاسکتی ہوں؟ (۵) اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر حلالہ کا حکم کیوں ہے اور کس طرح سے حلالہ ہوگا کیوں کہ اس طرح سے تو حلالہ نہیں ہوسکتا، تو اس لیے تو پھر پہلے سے بتانا ہوگا نہ کہ یہ نکاح حلالہ کے لیے ہوا ہے اور اس کی طلاق ہوگی؟ اب آپ میرے سوالات کے جوابات دیجیے اور مجھے بتائیے کہ میں حلالہ کے لیے کیا کروں، آپ کی مہربانی ہوگی اور مجھے جلدی جواب دیجیے کا۔ شکریہ

    جواب نمبر: 68091

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID:758-798/sd=9/1437 (۱، ۲) جو نکاح حلالہ کی شرط کے ساتھ کیا جائے، وہ ناجائز ہے، تاہم اس کے باوجود اگر نکاح کر لیا گیا، توحلالہ کی شرائط کے تحقق کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی اور بغیر کسی شرط کے محض حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا، جب کہ زوجین کو آپس میں ایک دوسرے کی نیت کا علم نہ ہو اور نہ ہی کسی تیسرے شخص کو اس کا علم ہو، تو یہ نکاح بلا کراہت جائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں اگر صرف آپ کے دل میں یہ بات ہو کہ میں نکاح کے بعد طلاق لینے کی کوشش کروں گی تاکہ سابق شوہر کے لیے حلال ہو جاوٴں اور آپ کی اس نیت کا علم کسی کو نہ ہو، تو شرعا یہ نکاح جائز ہوگا اور محض دل کی نیت کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اور اس کے بعد اگر دوسرا شخص طلاق دیدے گا تو وہ ماجور ہوگا۔ (۳، ۴، ۵) حلالہ کا مشروع طریقہ یہ کہ مطلقہ بائنہ عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے بلا کسی شرط و معاہدہ کے نکاح کر لے، پھر اتفاقاوہ شخص صحبت کے بعد از خود طلاق دیدے یا بقضائے الہی فوت ہوجائے، تو یہ عورت عدت کے بعد سابقہ شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی، مطلقہ ثلاثہ کے سابقہ شوہر کے لیے حلال ہونے کے سلسلے میں شریعت کا یہ ایک منصوص حکم ہے، جس کو بلا کسی شک و تردد کے ماننا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے، ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ شریعت کے احکام کو دل سے تسلیم کرے، خواہ کسی حکم کی حکمتیں اور مصلحتیں اُس کی ناقص عقل میں آئیں یا نہ آئیں۔ قال الحصکفي: وکرہ التزوج للثاني تحریما لحدیث لعن المحلل والمحلل لہ بشرط التحلیل کتزوجتک علی أن أحللک وان حلت للأول لصحة النکاح وبطلان الشرط۔۔۔۔۔۔۔ أما اذا أضمرا ذلک لا یکرہ، وکان الرجل ماجوراً لقصد الاصلاح۔۔۔۔ قال ابن عابدین: قولہ: (أما اذا أضمرا ذلک) محترز قولہ: بشرط التحلیل۔۔۔۔۔ وأورد السروجی أن الثابت عادة کا لثابت نصاً، أي: فیصیر شرط التحلیل کأنہ منصوص علیہ في العقد، فیکرہ، وأجاب في الفتح بأنہ لا یلزم من قصد الزوج ذلک أن یکون معروفاً بین الناس، انما ذلک فیمن نصب نفسہ لذلک وصار مشتہراً بہ۔ (الدر المختار مع رد المحتار: ۵/۴۷، ۴۸، کتاب الطلاق، باب الرجعة، ط: زکریا، احسن الفتاوی: ۵/۱۵۴، دار الاشاعت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند