• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 66440

    عنوان: کیا شریعت مطہرہ مسئلہ ذیل میں طلاق کی اجازت دیتی ہے ؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع اس مسئلہ میں کہ سلمان خان عثمانی قادری کی عمر 26 سال ہے ، شہر متھرا کا رہنے والا ایک سنی نوجوان ہے ،سلمان کی شادی آگرہ کی رہنے والی افروز عثمانی بنت ماسٹر امیرالدین عثمانی کے ساتھ شمسی تاریخ 10 مارچ 2013 کو ہوئی، شادی کے فورا بعد سے ہی افروز کا رویہ بہت ناخوشگوار رہا ہے ، یہ بالکل سلمان کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتی بلکہ سلمان کی توہین کرنے کی کوشش کرتی ہے ، ہمیشہ کہتی رہتی ہے کہ وہ سلمان کے ساتھ ہرگز شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس کے ماں باپ نے زبردستی شادی کروا دی ہے ۔ شریعت کے حکم کے برخلاف بال کٹوانا اور بہو یں بنوانا اس کا شوق رہا ہے ، شوہر کے منع کرنے پر اس کے ساتھ لڑنے پر آمادہ ہوتی ہے جس میں سلمان کے سسرال والے بھی افروز کی حمایت لیتے آئے ہیں، ان بد عملیوں کے علاوہ افروز پردہ کو برا جانتی ہے ، ہرگز نماز کی پابندی نہیں کرتی، نہ ہی یہ رمضان شریف کے فرض روذہ کو ادا کرتی ہے ۔شمسی تاریخ 21 مارچ 2014 کو سلمان کو ایک بیٹا ہوا، اس کے بعد بھی افروذ کے رویہ میں کوئی بہتری نہیں ہوئی، یہ نہ فرض نمازیں ادا کرتی اور نہ فرض روزہ۔ سلمان نے ایک مرتبہ اس کو ایک طلاق رجعی بھی دیا جبکہ افروز حیض کی حالت میں تھی اور اس حیض سے پاک ہونے کے بعد اگلے طہر میں ہی رجوع کر لیا، اس کے بعد بھی اس کی زوجہ کے رویہ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتا، سلمان کے ہر طرح کوشش کرنے کے باوجود یہ نماز و روزہ ادا نہیں کرتی اور نہ ہی پردہ کا اہتمام کرتی ہے ۔ایک دو ماہ سلمان کے گھر رہنے کے بعد یہ سلمان سے اپنے میکے جانے کی ضد کرنے لگتی ہے اور پھر کئی ماہ میں بہت مشقت کے بعد بمشکل آتی ہے ،تین ماہ پہلے (فروری 2016 میں) سلمان کو معلوم ہوا کہ اس کی زوجہ کسی غیر مرد کے ساتھ فون پر اور واٹس اپ پر بات چیت کرتی ہے ،تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سلمان کی زوجہ کے تعلقات اس غیر مرد کے ساتھ سلمان اور افروز کی شادی سے پہلے سے ہی ہیں، جب سلمان نے افروز سے پوچھ تاچھ کی تو اس نے سلمان کے سامنے قبول کیا ہے کہ اس کے تعلقات وسیم عباسی نام کے ایک غیر مرد کے ساتھ اس کے کالج کے دنوں سے ہی ہیں اور یہ بھی قبول کیا کہ یہ اس غیر مرد کے ساتھ لال قلعہ وغیرہ جیسی جگہوں پر ملنے کے لئے بھی جاتی ہے ، افروز کا یہ اقرار سلمان کے پاس آواز کی ریکارڈنگ کی شکل میں موجود ہے ،سلمان نے افروز کو اس شرط پر موقع دیا کہ یہ سچی توبہ کرے ، جھوٹ سے باز رہے ، شریعت کی پابند ہو جائے ، اور آگرہ (جہاں وہ غیر مرد رہتا ہے ) جانے سے باز رہے ،کچھ دنوں افروز نے سلمان کے سامنے نماز وغیرہ کی پابندی کی، لیکن چند دنوں بعد ہی دوبارہ جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور آگرہ جانے کے لئے ضد کرنے لگی، سلمان نے اس کو کہا کہ اگر یہ آگرہ جائے گی تو سلمان اس کے ساتھ اپنے بیٹے ، جس کی عمر اس وقت 2 سال 2 ماہ ہے ، کو نہیں بھیجے گا، سلمان کے منع کرنے کے باوجود یہ شمسی تاریخ 6 مئی 2016 کو اپنے باپ اور دو چچا کے ساتھ بچے کے بغیر ہی اپنے میکے چلی گئی، سلمان کا بیٹا سلمان کے ساتھ ہے ، سلمان اس وقت ذہنی طور پر بہت الجھن میں ہے ۔ برائے کرم راہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں شریعت مطہرہ کا سلمان کے لئے کیا حکم ہوگا؟ کیا سلمان کو ایسی صورت میں اپنی زوجہ کو طلاق دینے کی شرعی اجازت ہے ؟ اور کیا سلمان کے بچے کو اس کی بدکار زوجہ طلب کر سکتی ہے اور کیا بچے کو ایسی عورت کی پرورش میں دینا چاہئے ؟ سلمان نے اپنی زوجہ کو مہر پہلے ہی ادا کر دیا ہے ۔برائے کرم سلمان کے لئے شرعی فتوی عنایت فرماکر اس کے دل دماغ کی الجھنوں کو دور فرمائیں۔

    جواب نمبر: 66440

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 899-899/M=9/1437 سوال میں آپ نے اپنی بیوی کے جو حالات لکھے ہیں اگر وہ درست او رمطابق واقعہ ہیں تو بیوی بدچلن اور ناشزہ ہے ایسی بیوی کو طلاق دینے کی گنجائش ہے لیکن طلاق دینا واجب نہیں، اگر طلاق ہوجاتی ہے اور بچے کو اس کی پرورش میں دینے سے اس کے اخلاق بگڑنے کا اندیشہ ہو یا ضائع ہونے کا خطرہ ہوتو ایسی صورت میں بچے کو اس کی پرورش میں نہیں دیا جائے گا اس کا حق حضانت ساقط ہو جائے گا وہ مطالبہ نہیں کرسکتی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند