• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 63161

    عنوان: اس طلاق کا حکم

    سوال: السلام علیکم اس لڑکی کوجس سےآدمی نکاح کرناچاہتاہے نکاح سےپہلےکسی بات پہ غصہ ہو کربزریعہ موبائل میسج پیغام لکھ کربھیجناچائےاوراپنے موبائل میں یہ تحریر لکھے(میں کبھی بھی تم سے نکاح کروں تم اسی وقت مجھ پہ تین دفعہ طلاق ہو)یہ پیغام لکھنےکےبعدبھیجنےسےپہلےیہ سوچ کرکہ اس سےتوہمیشہ کیلیئےہم آپس میں حرام ہوجائینگے اسکا دل ودماغ متفق ہو جاتا ہے کہ یہ پیغام نہیں بھیجتااوروہ اپنےغصہ پہ قابوپالیتاہےاورطلاق معلق کرنےکاارادہ اورنیت ختم کر لیتا ہے اور اس پیغام کو نہ بھیجنے اور ختم کرنےکی غرض سےکینسل کرناچاہتاہے کینسل اور بھیجنے والا بٹن اوپر نیچے اک ساتھ ملے ہوئے ہیں وہ کینسل والا بٹن دبانے لگتا ہے مگرغلطی سے بھیجنے والے بٹن پہ ہاتھ لگ جاتاہےاورمیسج چلا جاتا ہے اب جسکوبھیجاجب اسے پوچھا گیا تواس نے کہاکہ اس نے جب میسج پڑھنا شروع کیا(میں کبھی بھی تم سے نکاح)اتناپڑھنےکےبعدچھوڑ دیااورمجھےپتابھی نہیں تھاکہ آگےکیا لکھاہواتھااورمیسج ڈیلیٹ کردیا تو آیا اس صورت میں اب نکاح کے بعد طلاق ہو جائے گی یا نہیں اور اگر طلاق ہو گی تو کونسی ہو گی اور اب اس لڑکی سے نکاح کی کوئی صورت ہو سکتی ہے کہ نہیں

    جواب نمبر: 63161

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 219-292/N=3/1437-U (۱-۳) صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے یہ الفاظ: ”میں کبھی بھی تم سے نکاح کروں تو اسی وقت مجھ پر تین دفعہ طلاق ہو“، میسج میں تعلیق طلاق کی نیت سے لکھے اور ”مجھ پر تین دفعہ طلاق“ کی تعبیر اس کے عرف ومحاورہ میں طلاق کے لیے استعمال ہوتی ہے تو لکھنے کے ساتھ ہی یہ قسم منعقد ہوگئی؛ کیونکہ اس تعلیق میں بھیجنے یا پہنچنے کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی ہے، پس یہ شخص جب کبھی اس لڑی سے نکاح کرے گا تو نکاح کرتے ہی اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، وہ لڑکی حرمت غلیظہ کے ساتھ اس پر حرام ہوجائے گی اور آئندہ حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہ ہوگی، البتہ ایک بار طلاق کی شرط پائے جانے پر قسم ختم ہوجائے گی؛ لہٰذا یہ شخص اگرحلالہ کے بعد اسی لڑکی سے دوبارہ نکاح کرے گا تو اب اس پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ اور اگر یہ شخص پہلی مرتبہ خود نکاح نہ کرے؛ بلکہ کوئی شخص اس کی جانب سے فضولی بن کر اس کا اس لڑکی سے نکاح کرادے، اس کے بعد اس شخص کو جب معلوم ہو تو یہ زبان سے نکاح کی اجازت نہ دے؛ بلکہ خاموش رہے اور لڑکی کے پاس مکمل مہر یا اس کا کچھ حصہ بھیج دے اور وہ بھیجا ہوا لڑکی کے پاس پہنچ جائے یا یہ شخص کسی کاغذ پر نکاح کی اجازت لکھ دے تو یہ نکاح ہوجائے گا اور اس لڑکی پر کوئی طلاق بھی واقع نہ ہوگی، قال فی الدر (مع الرد، أول کتاب الطلاق ۴: ۴۵۶ط مکتبة زکریا دیوبند): وإن کانت مستبینة لکنھا غیر مرسومة إن نوی الطلاق یقع وإلا لا، وإن کانت مرسومة یقع الطلاق نوی أو لم ینو، ثم المرسومة لا تخلو بأن کتب: أما بعد فأنت طالق فکما کتب ھذا یقع الطلاق وتلزمھا العدة من وقت الکتابة، وإن علق طلاقھا بمجییٴ الکتاب بأن کتب إذا جاء ک کتابي فأنت طالق فجاء ھا الکتاب فقرأتہ أو لم تقرأ یقع الطلاق کذا فی الخلاصة ط اھ، وقال فی ۵: ۶۷۲ منہ: حلف لا یتزوج فزوجہ فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل ومنہ الکتابة خلافاً لابن سماعة لا یحنث اھ، وانظر الرد أیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند