عنوان: تین طلاق دینا مگر ذہن میں اس کو ایک ماننا
سوال: تین طلاق دینا مگر ذہن میں اس کو ایک ماننا ۔
میں نے اپنی بیوی کو ماں کے زبردستی کہنے پر کاغذ پر لکھ کر تین طلاق دی مگر الفاظ منہ سے ادا نہیں کیا اور طلاق دیتے قت میں اس بات کو جانتاتھا کہ تین دوں یا سو ہوگی تو ایک ہی ، اس لیے میں نے طلاق دیدی ، اور گھر والوں کے کہنے کے باوجود بھی دو نوٹس نہیں بھیجا۔ میں بیوی سے رابطے میں تھا اور چار مہینے بعد میں نے اس سے دوبارہ نکاح کیا اور نیا حق مہر رکھ کے لے آیا ، میں ڈاکٹر ذاکر نائک کو سنتاہوں اور ان سے مشورہ کرکے لایاہوں، مگر والدہ کہتی ہیں کہ میں دیوبندی عالم کی بات مانوں گی ۔
براہ کرم، بتائیں کہ اس معاملے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے ایک دیوبندی عالم سے پوچھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے ، اگر نیت ایک کی تھی تو ایک ہی ہوگی؟ آپ اس کا فتوی دیں تاکہ میں اس کا پرنٹ والدہ کو دیکھا دوں اور میری جنت میرے پاس واپس آجائے ، بھی وہ مجھ سے ناراض ہے؟شکریہ ۔
جواب نمبر: 6310001-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 390-381/L=4/1437-U
صورت مسئولہ میں اگر آپ نے صریح الفاظ سے تین طلاق اپنی بیوی کو دیدی تو تینوں طلاقیں آپ کی بیوی پر واقع ہوگئیں اور بیوی مغلظہ بائنہ ہوکر آپ پر حرام ہوگئی، ڈاکٹر ذاکر نائک کی بات جمہور علمائے سلف وخلف کے خلاف ہونے کی وجہ سے لائق اعتبار نہیں، صریح الفاظ سے تین طلاق دینے کی صورت میں ایک کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا، یہ ظاہر کے بھی خلاف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند