• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 62952

    عنوان: غصہ کی حالت میں طلاق یا تعلیق طلاق درست ہوتی ہے

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ زید ڈیپریشن اور اعصاب و معدہ کا مریض ہے ، اسے اکثر اوقات غصہ آتا ہے ، اسے اپنے بھائیوں سے یہ گلہ بھی ہے کہ وہ اس کا خیال نہیں رکھتے اور اس کا علاج بھی نہیں کراتے ۔ عید الاضحی سے ایک دن پہلے وہ اپنی والدہ کے ساتھ کسی بات پر غصہ ہوگیا، بات یہ تھی کہ والدہ نے اسے چار دنبوں کو ذبح کرنے کے لئے چھریاں تیز کرنے کے لئے دیں، وہ اسے تیز کراکر گھر لایا اور بقول زید کے اس نے مذاقا اپنی والدہ سے کہا کہ یہ چھریاں لو اور مجھے اس کے ساڑھے تین سو روپے دے دو، والدہ نے جواب میں ذرا غیر مہذبانہ انداز میں کہا کہ تمھارے بچے ہی اس گوشت سے پر ہوں گے ، میں تھوڑی کھاؤں گی جو تم مجھ سے پیسے مانگ رہے ہو، یہ بات زید کو بہت بری لگی اور انتہائی غصہ آیا، یہاں تک کہ وہ غصہ سے کانپنے لگا، اور اس نے غصے سے اپنے کپڑے پھاڑے ، اور کہا کہ مجھ پر ثلاثا طلاق ہے (اپنی بیوی) کہ میں ان دنبوں کے گوشت سے کچھ کھاؤں، پھر بھائیوں نے اور باقی گھر والوں نے معاملہ رفع دفع کردیا اور زید بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد والدہ نے اس گوشت میں سے کچھ گوشت کسی اور کو دیا اور ان سے اور گوشت منگوایا تاکہ زید کو کھلا سکے ۔ ۔ ۔لیکن اس کی والدہ نے ان عید کے دنبوں میں سے کچھ گوشت سکھایا تھا، اور گھر میں رکھا تھا۔ ۔ پھر تقریبا دو مہینوں کے بعد زید جو کہ کہیں گیا تھا، گھر آیا، اور اس دن زید کے والدہ کی بہن بھی گھر آئی تھی، تو والدہ نے اپنی بہن کے لئے ان سکھائے ہوئے گوشت میں سے کچھ پکایا، جو کہ زید کو بھی کھانے کے لئے تھوڑا دیا، اور زید نے ایک چھوٹا ٹکڑا اس میں سے کھالیا، اس کے بعد کہیں سے زید کی بیوی آئی اور زید سے کہا کہ کیا آپ نے اس گوشت میں سے تو نہیں کھایا؟؟ زید نے کہا کہ تھوڑا سا کھالیا ہے ، کیوں خیر ہے ؟؟ تو بیوی نے کہا کہ یہ تو وہی عید والا گوشت تھا۔ ۔ تو زید غصہ ہوگیا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا؟؟ تو بیوی نے کہا کہ جب تمھاری بھابھی تم لوگوں کے پاس گوشت لیکر آرہی تھی تو میں نے اسے تین دفعہ بتایا کہ یہ گوشت تمھیں نہ کھلائے بلکہ تمھیں بتا دے کہ یہ گوشت مت کھاؤ، تو کیا اس نے تمھیں نہیں بتایا؟؟؟ تو زید نے کہا کہ نہیں بتایا۔ ۔ پھر زید والدہ پر غصہ ہوگیا کہ تم نے مجھے وہ گوشت کیوں کھلایا؟؟ تو والدہ نے کہا کہ واللہ مجھے یاد نہیں تھا، اور مجھے اتنا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ طلاق والا معاملہ اتنا نازک ہے ۔ اب آپ سے گذارش یہ ہے کہ آپ بتائیں کہ مذکورہ صورت میں زید کو کیا کرنا چاہئے ، کیا طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 62952

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 241-279/N=3/1437-U آدمی عام طور پر طلاق یا تعلیق طلاق غصہ کی حالت ہی میں کرتا ہے اور عام غصہ کی حالت میں طلاق یا تعلیق طلاق درست ہوتی ہے اور صورت مسئولہ میں بظاہر زید نے غصہ کی حالت میں تعلیق طلاق کے جو الفاظ کہے وہ ہوش وحواس ہی میں کہے، غصہ میں مد ہوش ہوکر اس نے بے خبری میں یہ الفاظ نہیں کہے ہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے غصہ کی حالت میں تعلیق طلاق کے جو الفاظ کہے، وہ شرعاً درست ومعتبر ہیں، پس صورت مسئولہ میں زید نے جو الفاظ کہے: ”مجھ پر ثلاثا طلاق ہے اپنی بیوی الخ“ ، اگر اس طرح کے الفاظ آپ کے علاقہ کے عرف ومحاورہ میں بیوی کے طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو متعینہ جانوروں کی قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ (ایک چھوٹا ٹکڑا) کھالینے کی وجہ سے زید کی بیوی کی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ حرمت غلیظہ کے ساتھ اپنے شوہر: زید پر حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہیں رہی، قال فی الدر (مع الرد، کتاب الطلاق، باب التعلیق ۴: ۶۰۹ ط مکتبة زکریا دیوبند): إن وجد - الشرط- فی الملک طلقت اھ، وقال اللہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰)، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔ وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان، باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲: ۵۱۴ ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع)، وقال في بدائع الصنائع (کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ط: مکتبة زکریادیوبند): وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾، وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔ وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان): …………فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند): وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند