معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 62952
جواب نمبر: 62952
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 241-279/N=3/1437-U آدمی عام طور پر طلاق یا تعلیق طلاق غصہ کی حالت ہی میں کرتا ہے اور عام غصہ کی حالت میں طلاق یا تعلیق طلاق درست ہوتی ہے اور صورت مسئولہ میں بظاہر زید نے غصہ کی حالت میں تعلیق طلاق کے جو الفاظ کہے وہ ہوش وحواس ہی میں کہے، غصہ میں مد ہوش ہوکر اس نے بے خبری میں یہ الفاظ نہیں کہے ہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں زید نے غصہ کی حالت میں تعلیق طلاق کے جو الفاظ کہے، وہ شرعاً درست ومعتبر ہیں، پس صورت مسئولہ میں زید نے جو الفاظ کہے: ”مجھ پر ثلاثا طلاق ہے اپنی بیوی الخ“ ، اگر اس طرح کے الفاظ آپ کے علاقہ کے عرف ومحاورہ میں بیوی کے طلاق کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو متعینہ جانوروں کی قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ (ایک چھوٹا ٹکڑا) کھالینے کی وجہ سے زید کی بیوی کی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ حرمت غلیظہ کے ساتھ اپنے شوہر: زید پر حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہیں رہی، قال فی الدر (مع الرد، کتاب الطلاق، باب التعلیق ۴: ۶۰۹ ط مکتبة زکریا دیوبند): إن وجد - الشرط- فی الملک طلقت اھ، وقال اللہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰)، وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔ وصححہ الشوکاني کما فی نیل الأوطار لہ (کتاب اللعان، باب لا یجتمع المتلاعنان أبداً ۱۲: ۵۱۴ ط دار ابن الجوزي للنشر والتوزیع)، وقال في بدائع الصنائع (کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ط: مکتبة زکریادیوبند): وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾، وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔ وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان): …………فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند): وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند