• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 62275

    عنوان: حساس موضوع تھا۔ شوہر نے انتہائی غصہ کے عالم میں کہا ‘میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ طلاق طلاق طلاق۔’ اسی وقت بیوی نے شوہر سے پوچھا ‘کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی۔

    سوال: شوہر اور بیوی میں کسی بات پر جھگڑا ہوا جو شوہر کے لئے حساس موضوع تھا۔ شوہر نے انتہائی غصہ کے عالم میں کہا ‘میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ طلاق طلاق طلاق۔’ اسی وقت بیوی نے شوہر سے پوچھا ‘کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی۔ اگر ایسا ہے تو میں یہاں نہیں رہ سکتی، مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔’ شوہر نے کہا ‘ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی۔’ اس کے بعد انھوں نے بیوی کی کافی منت سماجت کی کہ نہ ہی انھوں نے طلاق دی اور نہ ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔ جو جملہ انھوں نے کہا وہ غصہ میں ان کے منہ سے نکل گیا اور ان کا مقصد بیوی کو ڈرانا تھا تاکہ وہ باز آئے ۔ اور انھوں نے ‘دے دوں گا’ کے الفاظ استعمال کئے ‘دے دی’ نہیں کہا۔ شوہر اور بیوی دونوں ہی علحدگی نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن بیوی کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ شوہر نے تین مرتبہ‘ طلاق’ کا لفظ استعمال کیا ، کہیں ان کے ساتھ رہتے ہوئے وہ گناہ کی مرتکب تو نہیں ہو رہی ہے ۔ مہربانی فرما کر شریعت کے حوالے سے ان کی الجھن دور کریں۔شوہر کا بار بار یہی کہنا ہے کہ نہ انھوں نے طلاق دی اور نہ ہی ان کا طلاق دینے کا ارادہ تھا۔ برائے مہربانی تفصیل سے جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

    جواب نمبر: 62275

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 73-85/N=2/1437-U بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے پہلے اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دی، اس کے بعد اس دھمکی کو پورا کرتے ہوئے تین بار طلاق، طلاق، طلاق کہہ دیا ، اردو استعمال اور محاورہ کے پیش نظر یہی احتمال راجح وقوی ہے(مستفاد: کفایت المفتی ۶: ۳۸۹، جواب: ۳۷۱، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، اور طلاق کے الفاظ میں عورت کی جانب صریح نسبت ضروری نہیں ،معنوی نسبت بھی کافی ہوتی ہے اور صورت مسئولہ میں سباق کی روشنی میں معنوی نسبت پائی جارہی ہے اور صریح الفاظ میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ؛بلکہ اگر ڈرانے ،دھمکانے کی نیت ہو تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ؛ اس لیے صورت مسئولہ میں عورت پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں،وہ اپنے شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہوگئی اور اب حلالہ شرعی سے پہلے دونوں کے درمیان دوبارہ نکاح کی شرعاً کوئی صورت نہیں رہی، قال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق،الباب الثاني في إیقاع الطلاق، الفصل السابع فی الطلاق بالألفاظ الفارسیة۱:۳۸۴ط مکتبة زکریا دیوبند):سئل نجم الدین عن رجل قال لامرأتہ :اذھبي إلی بیت أمک،فقالت: طلاق دہ تا بروم،فقال:تو برو من طلاق دمادم فرستم،قال: لا تطلق؛لأنہ وعد کذا فی الخلاصة اھ،وقال فی الدر (مع الرد، کتاب الطلاق، باب الصریح ۴:۴۸۵ - ۴۶۱ ط مکتبة زکریا دیوبند):ویقع بھا أي بھذہ الألفاظ وما بمعناھا من الصریح ……وإن نوی خلافھا …… أو لم ینو شیئاً اھ ،وفی الرد(ص ۴۵۸):ولا یلزم کون الإضافة صریحة في کلامہ الخ، وقال اللہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة( سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰)،وجاء عند أبي داود في سننہ في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة(سنن أبي داود،کتاب الطلاق،باب فی اللعان ص۳۰۶،ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔وقال في بدائع الصنائع(کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ ط:مکتبة زکریا دیوبند):وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿ فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾،وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔وقال الجصاص الرازي في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط:دار إحیاء التراث العربي، بیروت، لبنان): …………فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ، وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة(المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷الھجریة، حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹):المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب:المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس … اھ،وقال فی الفتاوی الھندیة( کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة ومایتصل بہ۱: ۴۷۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند):وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة…لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند