معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 62265
جواب نمبر: 62265
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 83-83/Sd=2/1437-U صورت مسئولہ میں جب کہ آپ نے اپنی بیوی کو میسج میں یہ لکھ کر بھیج دیا کہ ”میں اپنی بیوی ’عظمی اکرم‘ کو دو او تین طلاق اس کے اپنے کیے گئے مطالبے پر دیتا ہوں“ اور پھر آپ نے اپنے سسر کے سامنے فون پر تین طلاق دینے کا اقرار بھی کرلیا، نیز تحریری طور پر بھی طلاق دیدی، تو بلاشبہ آپ کی بیوی مسماة ”عظمی اکرم“ پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں اور وہ مغظلہ بائنہ ہوگئی، اب حلالہ شرعی کے بغیر آپ اس سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے ہیں۔ قال اللّٰہ تعالی: فان طَلَّقَہا فَلَاتَحِلُّ لَہ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجاً غَیرَہ۔ (البقرة: ۲۳۰) عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً، فتزوجت، فطلق، فسأل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتحل للأول؟ قال: لا، حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الأول۔ (صحیح البخاري: ۲/ ۷۹۱، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث) واذا کان الطلاق ثلاثاً في الحرة و ثنتین في الأمة، لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ نکاحاً صحیحاً، و یدخل بہا، ثم یطلقہا، أو یموت عنہا۔ (الفتاوی الہندیة: ۱/ ۴۷۳، کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل بہ المطلقة) قال العیني: ذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم، منہم الأوزاعي والنخعي، والثوري، و أبوحنیفة، و أصحابہ، والشافعي، وأصحابہ، و أحمد، و أصحابہ، و اسحاق، و أبوثور، و أبوعبیدة، وآخرون کثیرون رحمہم اللّٰہ تعالی علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ ولکنہ یأثم۔ عمدة القاري: ۲/ ۲۳۳، کتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، ط: بیروت) وقال في الہندیة: وإن کانت مرسومةً، یقع الطلاق نوی أو لم ینو․ (رد المحتار علی الدر المختار: ۴/۴۶۵، ط: زکریا، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند