• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 61195

    عنوان: عرض یہ ہے کہ میرے والد جو کہ چار سال سے فالج کے مریض ہیں اور ان کی زبان بھی ٹھیک نہیں ہے اور ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرسکتے ، اس وجہ سے گھر میں بہت زیادہ غصہ کرتے ہیں اور عقل اور تعلیم میں بہت پیچھے ہونے کی وجہ سے اسلام اور دنیاوی معاملات کی زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے اسی وجہ سے ایک دن گھر میں معمولی سی بات پر میری والدہ کو دو طلاق دیدی ہیں، الفاظ تھے ، ”میں تجھے طلاق دیتاہوں“۔ جب کہ وہ معذور ہیں اور ان کے تمام کام میری والدہ ہی کرتی ہیں ، ہر طرح کا کام اور اس کے کچھ ہی دن بعد ایک بار پھر ایک طلاق اور دیدی ہے۔ اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں دیں ، مگر یہ بات بھی زیر غور ہے کہ میرے والد معذور ہیں اور والدہ کا تعلق انڈیا دیوبند سے ہے ، ان کا پاکستان میں کوئی نہیں ہے۔جزاک اللہ

    سوال: عرض یہ ہے کہ میرے والد جو کہ چار سال سے فالج کے مریض ہیں اور ان کی زبان بھی ٹھیک نہیں ہے اور ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرسکتے ، اس وجہ سے گھر میں بہت زیادہ غصہ کرتے ہیں اور عقل اور تعلیم میں بہت پیچھے ہونے کی وجہ سے اسلام اور دنیاوی معاملات کی زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں ہے اسی وجہ سے ایک دن گھر میں معمولی سی بات پر میری والدہ کو دو طلاق دیدی ہیں، الفاظ تھے ، ”میں تجھے طلاق دیتاہوں“۔ جب کہ وہ معذور ہیں اور ان کے تمام کام میری والدہ ہی کرتی ہیں ، ہر طرح کا کام اور اس کے کچھ ہی دن بعد ایک بار پھر ایک طلاق اور دیدی ہے۔ اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں دیں ، مگر یہ بات بھی زیر غور ہے کہ میرے والد معذور ہیں اور والدہ کا تعلق انڈیا دیوبند سے ہے ، ان کا پاکستان میں کوئی نہیں ہے۔جزاک اللہ

    جواب نمبر: 61195

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1010-1042/N=12/1436-U آپ کے والد صاحب اگرچہ فالج زدہ اور معذور ہیں کہ اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہیں کرسکتے، اور ان کی زبان بھی ٹھیک نہیں ہے، لیکن سوال میں ذکر کردہ حالات سے ان کا طلاق کے وقت ہوش وحواس میں نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مکمل ہوش وحواس میں آپ کی والدہ (: اپنی بیوی) کو طلاق دی ہے، پس اگر صورت حال یہی ہے تو صورت مسئولہ میں آپ کی والدہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، وہ حرمت غلیظہ کے ساتھ آپ کے والد پر حرام ہوگئیں اور اب حلالہ شرعی سے پہلے کسی صورت میں وہ دوبارہ آپ کے والد کے نکاح میں نہیں آسکتیں قال اللہ تعالی: فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاغیرہ الآیة (سورہ بقرہ آیت: ۲۳۰) ، وجاء عند أبي داود في روایة عیاض بن عبد اللہ الفھري وغیرہ عن ابن شھاب عن سھل بن سعد قال: فطلقھا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وکان ما صنع عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم سنة (سنن أبي داود، کتاب الطلاق، باب فی اللعان ص۳۰۶)۔ وقال في بدائع الصنائع (کتاب الطلاق۳: ۲۹۵ ط مکتبة زکریا دیوبند) : وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي ھو زوال الملک وزوال حل المحلیة أیضاً حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر لقولہ عز وجل ﴿ فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ ﴾ وسواء طلقھا ثلاثا متفرقاً أو جملة واحدة الخ۔ وقال الجصاص في أحکام القرآن (۲: ۸۵ط دار إحیاء التراث العربي بیروت لبنان) : …فالکتاب والسنة وإجماع السلف توجب إیقاع الثلاث معاً وإن کانت معصیة اھ وجاء في مجلة البحوث الإسلامیة (المجلد الأول العدد الثالث سنة ۱۳۹۷ الھجریة حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد ص ۱۲۴- ۱۳۹) : المسألة الثانیة فیما یترتب علی إیقاع الطلاق الثلاث بلفظ واحد؛ وفیہ مذاھب: المذھب الأول أنہ یقع ثلاثا وھو مذھب جمھور العلماء من الصحابة والتابعین ومن بعدھم، وقد استدلوا لذلک بأدلة من الکتاب والسنة والآثار والإجماع والقیاس …… اھ وقال فی الفتاوی الھندیة (کتاب الطلاق، باب فی الرجعة، فصل في ما تحل بہ المطلقة وما یتصل بہ۱: ۴۷۳ ط مکتبة زکریا دیوبند) : وإن کان الطلاق ثلاثاً فی الحرة……لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا ویدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنھا کذا فی الھدایة اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند