• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 61063

    عنوان: تین مہینے پہلے میری شادی ہوئی تھی اور حق مہر اس طرح طے ہوا کہ ” میں اپنی بیوکے ساتھ عمرہ کروں گا“ اور عمرے کا خرچ میری طرف سے ادا ہوگا۔ ہمارے گھریلو مسائل کی وجہ سے ہمارے درمیان کچھ مسائل آگئے ، اس لیے میں اب تک اپنی بیوی کو عمرہ کے لیے نہیں لے جاسکا۔ اگر میں اپنی بیوی کو چھوڑ دیتاہوں اور طلاق دیدیتاہوں تو حق مہر کیسے ادا ہوگا؟عمرہ کے خرچ کے برابر پیسیادا کروں؟ یا طلاق دینے سے پہلے اس کو عمرہ کے لیے لے جانا پڑے گا؟

    سوال: تین مہینے پہلے میری شادی ہوئی تھی اور حق مہر اس طرح طے ہوا کہ ” میں اپنی بیوکے ساتھ عمرہ کروں گا“ اور عمرے کا خرچ میری طرف سے ادا ہوگا۔ ہمارے گھریلو مسائل کی وجہ سے ہمارے درمیان کچھ مسائل آگئے ، اس لیے میں اب تک اپنی بیوی کو عمرہ کے لیے نہیں لے جاسکا۔ اگر میں اپنی بیوی کو چھوڑ دیتاہوں اور طلاق دیدیتاہوں تو حق مہر کیسے ادا ہوگا؟عمرہ کے خرچ کے برابر پیسیادا کروں؟ یا طلاق دینے سے پہلے اس کو عمرہ کے لیے لے جانا پڑے گا؟

    جواب نمبر: 61063

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1123-1114/N=1/1437-U عمرہ کرانے کو یا حج کرانے کو مہر مقرر کرنا درست نہیں؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرچکے ہیں یا آپ دونوں کے درمیان خلوت صحیحہ ہوچکی ہے تو آپ پر مہل مثل واجب ہے یعنی: آپ کی بیوی کے خاندان کی لڑکیوں کا عام طور پر جو مہر ہوتا ہے، آپ وہ ادا کریں گے۔ قال في الہندیة (۱: ۳۰۳، ط: مکتبہ زکریا دیوبند): وغذا تزوجہ علی تعلیم الحلاف والحرام من الأحکام أو علی الحج والعمرة ونحوہما من الطاعات لا تصح التسمیة عندنا، ․․․․․․ وإذا فسدت التسمیة أو تزلزلت یجب مہر المثل، ․․․․․․ کذا في البدائع اہٹ، وانظر البدائع۔ (۲: ۵۶۴، ۵۶۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند) وحاشیة الطحطاوي علی الدر (۲: ۵۱، ط: مکتبہ الاتحاد دیوبند) أیضًا․


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند